ملک میں پہلے بیرون ملک انسانی اسمگلنگ کے رپورٹ زیادہ سامنے آیا کرتے تھے جن کا مقصد بیرون ملک جاکر مزدوری کرکے اپنی مالی حالت بہتر کرنا تھا۔ اس کام کیلئے بہت بڑا نیٹ ورک ملک کے اندر کام کرتا ہے جو شہریوں سے روپے لیکر انہیں ایران کے راستے غیر قانونی طریقے سے ترکی پھر اس کے بعد یورپ میں بھیجتے ہیں، ترکی کے سمندر میں سینکڑوں پاکستانی لقمہ اجل بن گئے تھے جبکہ بعض راستوں میں ہی دم توڑگئے۔
انتہائی ابتر حالت میں انہیں بیرون ملک لے جایا جاتا ہے جس میں بڑی سے لیکر چھوٹی گاڑیوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس کام میں بعض سرکاری آفیسران بھی ملوث ہوتے ہیں کیونکہ ان کی مدد کے بغیرباآسانی طویل سفر کرناممکن نہیں ہے۔
گزشتہ سال یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ انسانی اسمگلنگ کے دوران مختلف گروہ ایران اور ترکی کے سرحدی علاقے میں غریب لوگوں کو اغواء کرکے ان کی ویڈیو بناکر ان کے گھر بھیج کر لاکھوں روپے کا تاوان طلب کرتے تھے جو پیسہ نہیں دیتے ان کو جان سے مار دیتے ان واقعات کے بعد سیکیورٹی ادارے حرکت میں آگئے اور مختلف گروہوں کو گرفتار کرلیا جس کے بعد اس کی شرح میں انتہائی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
اگر پہلے سے ہی اس معاملے کو سنجیدگی سے لیاجائے تو یقینا غریب عوام کی جمع پونجی سمیت قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کوہر صورت یقینی بنائے،ساتھ ہی انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے ریاستی رٹ کو یقینی بنائے۔
بہرحال ملک کے مختلف حصوں سے ایران، ترکی اور یورپ تک پہنچانے والے انسانی اسمگلنگ میں کمی آگئی ہے مگر اب ایک نیا مسئلہ مسلسل رپورٹ ہورہا ہے کہ چینی باشندے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرکے انہیں چین منتقل کررہے ہیں اور پھر وہاں ان لڑکیوں سے جسم فروشی کا کام لیا جاتا ہے اور بعض کے انسانی اعضاء نکال کر فروخت کر نے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ انتہائی غیر انسانی فعل ہے۔
گوکہ چائنا ہمارا دوست ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو کس طرح سے ویزہ فراہم کیاجارہا ہے اور کتنے چینی باشندوں کو اب تک ویزہ دیا جاچکا ہے کہ چینی باشندے آسانی سے ملک کے کسی بھی حصے میں جاسکتے ہیں۔ ان ویزوں کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے سی پیک منصوبہ کی وجہ سے ہم اپنے ملکی قوانین کو کسی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
موجودہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ویزوں کی فوری جانچ پڑتال شروع کردے تاکہ جو عناصر اس میں ملوث ہیں ان کو گرفتار کیا جائے۔ گزشتہ روز ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سیل نے بڑی کارروائی کے دور ان شادی کے بہانے پاکستانی لڑکیوں کی اسمگلنگ میں ملوث چینی گروہ کو گرفتار کرلیا۔
ایف آئی اے کے مطابق پکڑے گئے گروہ میں 3 چینی باشندے، 4 پاکستانی شہری شامل ہیں،دو پاکستانی خواتین نے چینی گروہ کیخلاف ڈی جی ایف آئی کو شکایت کی تھی،پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کرنے والے گیانگ دا اور فیوسنگ بو بھی گرفتار کرلئے گئے۔گیانگ دا نے صائمہ نامی لڑکی جبکہ فیوسنگ بو نے صبا جہانگیر سے شادی کر رکھی تھی،ایف آئی اے کے مطابق ملزمان تبدیلی مذہب کے جعلی سرٹیفکیٹ بنا کر پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کرتے تھے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر کامران علی کے مطابق چین لے جانے کے بعدپاکستانی لڑکیوں سے جسم فروشی کا دھندہ کرایا جاتا تھا۔انہوں نے کہاکہ پاکستانی لڑکیوں کے اعضاء نکال کر بیچے جانے کی بھی شکایات تھیں۔انہوں نے کہاکہ گرفتار ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔یہ خبر انتہائی دلخراش ہے کہ کس طرح ملک کی بیٹیوں کے ساتھ شادی کرکے پھر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کے اعضاء تک فروخت کئے جاتے ہیں یقینا یہ ایک بڑا نیٹ ورک ہے جوملک کے اندر کام کررہا ہے جس میں پاکستانی بھی ملوث ہیں لہٰذا اس کے تدارک کیلئے فوری طور پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ معصوم لڑکیوں کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچایاجاسکے۔