|

وقتِ اشاعت :   May 12 – 2019

عوام گزشتہ 70 سالوں سے دیکھ رہی ہے کہ کس طرح حکمرانوں کی شاہ خرچیوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا اور ملک کو مقروض بنادیا۔ عوام ہر بار ایک نئی امید کے ساتھ کسی ایک جماعت کو اکثریت کے ساتھ کامیاب کراکے اقتدار کے منصب پر بٹھاتے ہیں کہ ماضی میں جوکچھ حکمرانوں نے کیا، اب ان کا ازالہ کیاجائے گا۔

ملکی معیشت بہتر ہوگی، ملک میں بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا، غریب عوام کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم ملے گا تاکہ پرائیویٹ اسکول مافیاسے ان کی جان چوٹ جائے۔جبکہ سرکاری اسکولوں میں بہترین تعلیم نظام رائج کیاجائے گا اسی طرح سرکاری ہسپتالوں کی بہتری کیلئے مؤثر اقدامات اٹھائے جائینگے تاکہ غریب عوام کو سستا علاج فراہم ہوسکے جس سے پرائیویٹ ہسپتالوں سے ان کو چھٹکارا مل جائے جو بے دردی سے عوام کو لوٹتے آرہے ہیں۔

حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کے بڑے بڑے سرجن اپنا زیادہ تر وقت نجی ہسپتالوں کو دیتے ہیں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں چونکہ ان کے پیچھے بااثر شخصیات ہوتی ہیں جو سرکاری خزانہ سے لاکھوں روپے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں ساتھ ہی نجی ہسپتالوں سے بھی خوب پیسہ بٹورتے ہیں اگر چہ ہمارے یہاں یہ پُرکشش کاروبار بن چکا ہے اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی حاضری سمیت سہولیات سے عوام بخوبی آگاہ ہیں جو روزانہ علاج کی غرض سے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں مگر مایوس ہوکر واپس لوٹ جاتے ہیں کیونکہ وہاں کوئی سہولیات ان کو میسر نہیں مجبوراََ نجی ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔

ہر بار اقتدار میں آنے والے حکمرانوں نے عوام کو پُرکشش نعروں کے ذریعے خوابوں کی ایک نئی دنیا دکھائی مگر حقیقت کسی نے بھی عوام کے سامنے نہیں لایا کہ ملک کتنا مقروض ہے اور عوام اس کا بوجھ برداشت کررہی ہے مزید اسے آگے چلکر بھی اسی اذیت سے گزرنا پڑے گا۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی عوام نے اس لئے مینڈیٹ دیا تاکہ وہ عوام کو ان مشکلات سے نجات دلائے ماضی میں جس طرح غلط پالیسیاں بنائی گئیں اور فیصلے کئے گئے ان کو دہرایا نہیں جائے گا بلکہ مثالی حکومت قائم کی جائے گی اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کو مضبوط کرکے آگے بڑھا جائے گا مگر موجودہ قیادت نے بھی وہی پرانے فیصلے کیے۔

جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے یہاں کسی جماعت کے پاس بہترین معاشی پالیسی موجود نہیں کہ ملکی معیشت کو بہتر سمت میں لے جانے کیلئے ایک پروگرام ترتیب دے سکے، گھما پھراکر آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا پڑتا ہے جس کا نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ ہر چیز پربھاری بھاری ٹیکس لگائے جارہے ہیں اور اس کا سارا بوجھ عوام برداشت کررہی ہے۔ نہ حکمرانوں کے لوٹے ہوئے پیسے قومی خزانہ میں واپس آئے اور نہ ہی قرضہ لینے سے گریز کیا گیا۔

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب کے دوران کہا کہ اس وقت ہمارے لوگ مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، ہمیں احساس ہے،قرضے اتارنے کیلئے قوم کو مشکلات سے گزرنا پڑیگا،قوموں پر اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں اور انشاء اللہ یہ ملک بھی بہتری کی طرف جائیگا،جہاں بھی ضرورت ہوگی نئے ہسپتال بنائیں گے۔

عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے،حکومت نوجوانوں کو قرضے دے کر انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دے گی۔ یہی باتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں، خدا کرے کہ آنے والے سالوں میں عوام اس بہتری کو دیکھ سکیں، فی الحال امید اور دعا پر ہی اکتفا کیا جاسکتا ہے۔