تربت میں اب تک ڈینگی وائرس کے 1 ہزار سے زیادہ کیسزرجسٹرڈاور،کل 3اموات واقع ہوئے ہیں۔1دن میں ریکارڈ 42کیس سامنے آئے۔ تربت میں ڈینگی وائرس کے پھیلنے سے اب تک سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں 1065کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں 3افراد کی موت واقع ہوئی۔
تربت کے مقامی ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس کے نارمل ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے مگر ان کی حتمی تشخیص اور مکمل ٹیسٹ کی سہولت حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مریضوں کی اکثریت ڈینگی کی علاج کے لیئے کراچی جاتی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر فاروق رند کے مطابق تربت میں ڈینگی وائرس کنٹرول میں ہے اس کے لیئے علاج اور شہریوں کی حفاظتی تدابیر کے لیئے محکمہ صحت دیگر اداروں بالخصوص میونسپل کارپوریشن کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھار ہے ہیں۔ شہر میں مختلف مقامات پر اسپرے مہم کا سلسلہ جاری ہے جس سے وائرس کی شدت میں کافی کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ تربت میں شروع سے اب تک ڈینگی کے کل 1ایک ہزار65مریض رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ اپریل کے مہینے میں سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے مگر اب ان کی شرح میں کافی کمی آئی ہے۔ ابتدائی دنوں میں روزانہ 20سے30مریض ہسپتالوں میں لائے جاتے تھے لیکن اب روزانہ10سے12کی تعداد میں مریض ڈینگی سے متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ ڈینگی وائرس سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سنگانی سر،ملک آباد اور سٹی شامل ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں کیسز کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کے مطابق ڈینگی وائرس کے خلاف موثر حکومتی اقدامات اور ضلعی انتظامیہ کی فوری ایکشن کے باعث اس پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے اور مزید حفاظتی اقدامات کی خاطر شہر میں این جی اوز اور سماجی اداروں کے ساتھ مل کر اسکولوں اور پبلک مقامات میں آگاہی سیشن کرائے جارہے ہیں۔
ضلع کیچ کا مرکزی شہر تربت ایک بڑی آبادی پر مشتمل ہے بلوچستان کا یہ ایک اہم علاقہ ہے بدقسمتی سے گزشتہ چند ماہ سے اس شہر میں ڈینگی وائرس جیسی خطرناک بیماری کی رپورٹ ہورہی ہے مگر بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ تک میں یہ خبر نظر نہیں آتی چونکہ اس میں سنسنی نہیں جس کی وجہ سے ریٹنگ بڑھ سکے۔
اس مسئلے کو اٹھانا صرف سیاستدانوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ میڈیا کا اس میں انتہائی اہم کردار ہونا چاہئے جب لاہور میں ڈینگی وائرس کی وباء پھیلی تو روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینلز کی لیڈ اسٹوری میں اس خبر کو شامل کیاجاتا تھا اب چونکہ اس وباء کا تعلق بلوچستان سے ہے اس لئے اسے نظر انداز کیاجارہا ہے۔
بلوچستان سے متعلق ہمیشہ ایسی خبروں کوجگہ دی جاتی ہے جس میں منفی تاثر زیادہ شامل ہو، مگر بلوچستان کے عوام سے جڑے مسائل پر کبھی کبھار چھوٹا سا پروگرام اور ایک آدھ لائن چھاپ کر جان چھڑائی جاتی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی بھی دلچسپی بلوچستان کے بنیادی مسائل میں نہیں اور کیوں ہو الیکٹرانک میڈیا کی مارکیٹ بلوچستان میں نہیں۔
سندھ، پنجاب ہمیشہ خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں وہاں کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ کو بڑا بنا کر پیش کیاجاتا ہے اور گھنٹوں اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔خدارا بلوچستان کو بھی اس ملک کا حصہ سمجھتے ہوئے یہاں بسنے والے لوگوں کے ساتھ انصاف کیجئے۔ بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں حکمرانی کرنے والی جماعتوں نے بھی عوام کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے محض دعوے ہی کئے ہیں۔
خطیر رقم محکمہ صحت کیلئے مختص کرنے کے باوجود آج بھی بلوچستان کے بیشتر غریب عوام کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں علاج ومعالجے کیلئے جاتے ہیں جو کہ انتہائی شرمناک بات ہے۔ اب بھی صرف یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ کتنے کیسز ڈینگی کے رپورٹ ہوئے ہیں مگر علاج کی سہولیات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے موجودہ حکومت اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کرکے صورتحال سے آگاہی لے۔
اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ بلوچستان نے نوٹس تو لیا تھا مگر علاج ومعالجے کے متعلق اچھی اطلاعات تربت سے نہیں آرہیں۔مزیداموات اور وباء کے مزید علاقوں تک پھیلنے کی اطلاعات آرہی ہیں لہٰذا عوام کوطبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کردار ادا کرے اور میڈیا اس معاملے میں اپنے فرائض سے غفلت نہ برتے جس کی شکایت ہمیشہ بلوچستان کے عوام کو رہتی ہے۔