|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2019

پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے خطے میں تجارتی ودفاعی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیاء سے لیکر مغرب تک پاکستان باآسانی تجارتی حوالے سے رسائی حاصل کرسکتا ہے بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں کی جنگی ماحول کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا نہیں ہوا جبکہ سابقہ حکمرانوں نے بھی کسی ایسی پالیسی پر توجہ نہیں دی کہ کس طرح سے اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارت کو وسعت دیں۔

بلوچستان اس تمام صورتحال میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے گوادر پورٹ کا روٹ ان راستوں کا ملاپ ہے، آج ایران چاہ بہار پر اپنی توجہ مرکوز کربیٹھا ہے جہاں بھارت، جاپان، سمیت دیگر ممالک سرمایہ کاری کررہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں سب سے بڑا منصوبہ سی پیک ہے اسی منصوبہ کو وسعت دیتے ہوئے دیگر پڑوسی ممالک اور دنیا کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے خاص کر اگر سینٹرل ایشیاء کے روٹ پر کام کیاجائے جو 40 کے قریب ممالک پر مشتمل ہے جہاں سے راہداری کے ذریعے اربوں ڈالر کی آمدنی کمائی جاسکتی ہے جیسا کہ ایران کررہا ہے۔

اگر اس روٹ کا اندازہ لگایاجائے تو ایران دوہزار کلومیٹر سے بھی زائد دور پڑتا ہے جبکہ گوادر سے صرف 1200کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ایران اسی راستے کے ذریعے ان ممالک کے ساتھ تجارت کررہاہے اور اربوں ڈالر آمدن کے ذریعے اپنے خزانے کو فائدہ پہنچارہا ہے، اگر موجودہ حکومت صرف اسی روٹ پر کام شروع کرے تو آنے والے وقت میں ملکی معیشت بلندیوں پر پہنچ جائے گی۔ جس طرح سے مالی بحران اور قرضوں کابوجھ بڑھتاجارہا ہے سب ختم ہوجائے گا معاشی لحاظ سے پاکستان ایشیاء کا ٹائیگربن جائے گا۔

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کا دورہ کرغزستان میں غیرملکی خبررساں ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے روس سمیت کسی کی بھی ثالثی کے لیے تیار ہے۔وزیراعظم عمران خان کاکہناہے کہ جب ہمارے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں جنگ سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے قبل ہماری بھارت سے تین جنگیں ہو چکی ہیں جس سے دونوں ملکوں کو نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر ہے جسے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور اگر دونوں حکومتیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا تہیہ کر لیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم بھارت کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم ہمیں امید ہے کہ موجودہ بھارتی وزیر اعظم اس مسئلہ کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک نے ہمیں نئی آؤٹ لٹس تک رسائی فراہم کی ہے اور یقیناً اب اس میں بھارت بھی شامل ہے جس سے ہم ہمارے دو طرفہ تعلقات انتہائی کمزور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں بہت زیادہ غربت ہے جس کے خاتمے کے لیے ہمیں ہتھیاروں کے بجائے انسانوں پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے چین نے غربت کے خاتمے کے لیے اپنی عوام پر رقم خرچ کی اور وہاں سے آج غربت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ مغرب سے بہتر تعلقات استوار کرنے پر زور رہا ہے تاہم اب ہم نئی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے ہم شنگھائی تعاون تنظیموں کے ممالک سے تعلقات مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔

دوسری جانب پاکستانی کمیونٹی سے کرغزستان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان وسط ایشیائی ممالک کی تجارتی منڈیوں تک اضافی رسائی چاہتا ہے اورپاکستان کے امن و استحکام میں بہتری آئی ہے،پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وسط ایشیاء کی تمام ریاستیں ہمارے لیے اہم ہیں اور افغان امن عمل بحال ہوتے ہی وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہو گا جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی پاکستان آئیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم ایک بہترین فورم ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شریک ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے جونہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہوگا۔

آج جس تیزی کے ساتھ معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اگر اس تناظر میں ڈپلومیٹک چینل کو بروئے کار لایاجائے تو یقینا صورتحال میں بہت زیادہ بہتری آسکتی ہے، اکیسویں صدی ترقی کا دور ہے جس میں بہترین معاشی پالیسیوں پر زور دینا چاہئے تاکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ملک نہ صرف معاشی بلکہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی ابھر کر سامنے آئے۔