|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2019

ِ ضرب المثل ہے، آ بیل مجھے مار ، کوئی بندہ اپنے آپ کو مصیبتوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ مڈبھیڑ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جو بداخلاقی کا مرتکب ہو۔بات اگر بلوچستان کے شاہراہوں کی ہو تو ان سے ہر کوئی پناہ مانگتا پھرے مگر پھر بھی پناہ نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔۔ قتلِ عام روز یہاں جاری ہے۔ دھندناتا پھرتا ہوا یہ قاتل کسی کے ہتھے نہیں چڑھتا سب ہی اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

جب بھی کوئٹہ کراچی شاہراہ پر سفر کرتا ہوں تو میری نگاہیں ہزاروں گھروں کے چراغ بجھانے والے اس قاتل کی متلاشی رہتی ہیں جو ہر واردات کے بعد تازہ دم ہو جاتا ہے اس خوف سے سفر کرتا ہوں کہ کہیں اس قاتل کا اگلا نشانہ نہ بن جاؤں اپنی بچاؤ کے لیے بھی میں قاتل کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں مگر قاتل کو شناخت نہیں کر پاتا ہوں۔قاتل تک پہنچ کر اس کا کام ہمیشہ کے لیے تمام کرنا چاہتا ہوں بعد از قتل کیوں نہ عمر بھر کے لیے مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے۔

میں اس درندے قاتل تک پہنچنا چاہتا ہوں جس نے نہ جانے کتنی معصوم جانیں لی ہیں اور کتنے لوگ درندگی کی زد میں آکر اپاہج ہوئے، کتنی مائیں عمر بھر کاروگ سینے سے لگا بیٹھیں۔ اس قاتل کے خلاف گواہوں کی کمی نہیں ثبوت ہر سمت بکھرے پڑے ہیں مگر میں اس کی زبان سے اقبال جرم سننے کا خواہشمند ہوں عدالتی کٹہرے میں یہ باعزت بری ہو سکتا ہے میں اسے زندہ پکڑکر عوامی کٹہرے میں لا نے کا خواہشمند ہوں اور اس کا خاتمہ عوامی عدالت کرے میں اس موقع پر جشن منانے کا خواہشمند ہوں۔

میں نے اس قاتل کو کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔۔ کوئٹہ سے لے کر خضدار تک ہر اس مقام پر اسے ڈھونڈتا رہا جہاں اس نے عبرت کے نشان ڈھانچوں کی شکل میں چھوڑے ہیں۔ہر اس ڈھانچے میں اسے ڈھونڈتا رہا جہاں بیک وقت وہ کئی جسموں سے روحوں کو جدا کر چلا تھا۔ مجھے ہر سمت انصاف کے متلاشی روحوں کی آہ و بکا سنائی دیتا رہا ”بچاؤ بچاؤ کی آوازیں“ ان بچوں کے غائب وجودوں سے سنائی دیتی رہیں جو ماؤں کی گود سے لپٹ کر آخری بار سانسیں لے چکے تھے۔

یہ کیسا قاتل تھا جو قتل کرنے کے باجود اپنی قدموں کے نشان بھی مٹا کر چلا گیا تھا۔”ہمارا قاتل کون“ جیسی آوازیں کان کے پردوں کو چھیرتی ہوئی وجود کے اندر سرائیت کرتی چلی گئیں اور میں پاگلوں کی طرح اس قاتل کو ڈھونڈتا چلا گیا جو گمنام تھا اس کا طریقہ واردات مختلف تھا وہ مختلف انداز میں سوچتا اور قاتلانہ کاروائیاں کرتامختلف۔ یہ قاتل بھی کسی بدروح شیطان کے مانند کہیں نظر نہیں آیا آنکھوں سے اوجھل مگر ہر جگہ نمایاں، ہدف کے تعاقب میں یہ کبھی ناکام نہیں رہا جب بھی اس کا من چاہا اس نے اپنا بوجھل دل ہلکان کیا۔

قاتل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خضدار سے لسبیلہ تک پہنچا قاتل تو نہیں ملا مگر مقتول روح سراپا احتجاج ضرور نظر آئے۔۔ سڑک کے چاروں طرف بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے یہ روحیں انصاف انصاف کی دہائیاں دیتے نظر آئے۔ آوازوں سے بچنے کے لیے کانوں میں روئی ٹھونستا رہا مگر یہ آواز میرے وجود کے اندر اترتے چلے گئے اور بے چینی پیدا کرتے چلے گئے۔۔

یہ کون تھے ہاں ہاں یاد آیا یہ تو وہی پنجگور جانے والی کوچ کے مسافر تھے جو اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل راہ کے مسافر ہی ہو کر رہ گئے۔ قاتل کو وہاں بھی ڈھونڈتا رہا مگر قاتل تھا کہیں نظر نہیں آیا۔ احتجاج پر آمادہ ان روحوں کے مطالبات جائز تھے قاتل کی گرفتاری اور قاتل کو پھانسی کی سزا۔ مگر قتل عام کا بازار گرم کرکے قاتل پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا تھا۔ چلیں اگر گمشدگان میں شمار ہے تو پھر بھی غنیمت ہے۔

روحوں سے جان چھڑانے کے لیے ہم نے قاتل کو لاپتہ قرار دے کر جان خلاصی کر لی اور سکھ کا سانس لے کر آگے جانے کی ٹھان لی کہ اب تو کہیں بھی ایسا منظر دکھائی نہ دے جو منظر ہم پیچھے جھیل کر آئے ہیں۔۔

جیسے ہی وندر کے علاقے ناکہ کھارڑی پہنچے ایک تازہ واقعہ ہمارا منتظر تھا ہماری آنکھیں دھندلا گئیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ قاتل تھوڑی دیر پہلے یہاں پہنچ کر دو گاڑیوں کو ٹکرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ قاتل لاپتہ نہیں تھا بلکہ نئی شکار کی تلاش میں گھوم پھر رہا تھا۔ یہ کیسا قاتل ہے جس تک پہنچنے میں اب تک حکومت ناکام دکھائی دے رہی ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل۔ کہیں انسانی آبادی کو کم کرنے کے لیے اسے اسپائیڈر مین کا لباس تو نہیں پہنایا گیا ہے۔

ہم اپنی آنکھوں سے فقط لوگوں کو جلتے ہوئے دیکھ پائے مگر کچھ نہیں کر پائے۔ جھلستے جسموں سے نکلتی درد بھری آوازیں ہماری وجود سے ٹکرا رہی تھیں ہم نے اپنے آپ کو بندھا ہوا پایا۔قاتل کا اگلا شکار ہم نہ ہوں ہم وہاں سے نکل آئے۔

گڈانی کے ایریا تک پہنچتے پہنچتے ہمارا سامنا جتنی روحوں سے ہوا انصاف کے لیے آہ و زاری کرتے کرتے اب وہ تھک گئے تھے۔ اس خاموش منظرنامے میں تکلیف کا جو منظر میرے سامنے آویزاں تھا وہ روحوں کے احتجاج سے کہیں زیادہ خوفناک تھا۔ ہمارے سامنے وہ منظرنامہ دوبارہ آویزاں ہوا جب قاتل نے تیل کا سہارا لے کر 40جانوں کو آگ لگا کر اس منظرنامے کو اپنی آنکھوں میں قید کیا تھاقاتل پکڑا نہیں گیا۔

روحیں ایک زمانے تک سراپا احتجاج بنیں رہیں مگر کچھ نہ ہوا سوائے طفل تسلیوں کے۔ ہمیں وہاں نہ قاتل نظر آیا اور نہ ہی جسم سے جدا ہوتی ہوئی روحیں، سنا ہے کہ اب وہ غیرانسانی بستیوں میں آباد ہوچکے ہیں اس امید پر کہ شاید ان کی روحوں کو شانتی ملے۔

منظرنامہ بدل چکا ہے اب میں اس خونی شاہراہ سے نکل چکا ہوں مگر جو منظر نامہ میرے ذہن میں نقش ہو چکا ہے وہ منظرنامہ مجھے سونے نہیں دیتا۔۔ سوچتا ہوں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود حاکمِ وقت سکون کی نیند کیسے سو پاتا ہے۔