|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2014

اسلام آباد: متنازعہ تحفظِ پاکستان بل پر پیپلز پارٹی میں اُس حکومتی اقدام پر ناراضگی پائی جاتی ہے جس میں اس نے حزبِ اختلاف کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے باوجود اس مجوزہ انسدادِ دہشت گردی بل پر مشاورت کے لیے جمیعت علمائے اسلام ف سے رابطہ قائم کیا ہے۔ پی پی پی رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر حکومت اس بل میں جمیعت علمائے اسلام ف کی جانب سے تجویر کردہ کوئی بھی ترمیم شامل کرے گی تو وہ اس بل کی حمایت نہیں کریں گے۔ وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد، جن کو جے یو آئی ف کی اُس ٹیم کے حوالے کردیا گیا جس کی سربراہی خود جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کررہے ہیں، نے جعمرات کے روز بل کے مسودے پر اتفاق کیا تھا جس میں کم سے کم بارہ حزبِ اختلاف کی طرف سے تجویز کردہ ترمیم شامل کی گئیں تھیں۔ جمیعت علمائے اسلام ف نے زاہد حامد کو بتایا وہ ایک قانونی ٹیم کی جانب سے اس مسودے کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی جواب دے گی۔ خیال رہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد میں ہونے کے باوجود قومی اسمبلی جمیعت علمائے اسلام ف نے اس بل کی مخالفت کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں رہنما اور اس بل پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان رابطہ کار رضا ربانی نے مسودے کو جے یو آئی ف کے حوالے کرنے کے فیصلہ پر سخت حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ یہ صرف پی پی پی کا مسودہ نہیں ہے، بلکہ اس میں اے این پی، پاکستان مسلم لیگ ق، بی این پی- اے اور یہاں تک کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی بھی شامل ہیں’۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت طے شدہ حل نکال کر صرف ایک جماعت کے ساتھ چلنا چاہتی ہے تو پھر ایک جماعت کی جانب سے تجویز پیش کرنے کے پاپند نہیں ہیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘یہ پورا معاملہ نئے سرے سے اوپن ہونا چاہیے’۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ جمیعت علمائے اسلام ف ایک اتحادی جماعت ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے حزبِ اختلاف کے ساتھ مشاورت کرے پھر اس معاملے پر اتحادیوں سے رابطے کرے۔ دوسری جانب جمیعت علمائے اسلام ف کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ قانونی ماہرین کی ٹیم اس بل کا جائزہ پیر کے روز لے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘ اپوزیشن جماعتیں اپنے تحفظات کے اظہار میں جواز پیش کررہی ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک کمیٹی کے ذریعے تمام جماعتوں کو اس بل پر ایک ساتھ اعتماد میں لے’۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ زاہد حامد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ بل جلد ہی اتفاقِ رائے کے پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا۔ جب ان کی توجہ سینیٹر رضا ربانی کے تحفظات کی جانب مرکوز کروائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مفروضہ میں ہیں کہ جمیعت علمائے اسلام کچھ اہم تبدیلیوں کی تجویز پیش کرے گی۔ ان کے خیال میں جمیعت علمائے اسلام ف اس بل میں کچھ معمولی ترمیم پر بھی اتفاق کرلے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام جماعتوں کو اس مسودے پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے مدعو کیا تھا، لیکن جے یو آئی فکے مولانا عبدلغفور حیدری اس اجلاس کو بلانے میں ناکام رہے۔