خضدار: بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے کہا ہے کہ ضلع خضدار میں تعلیمی ادارے حکومتی و عوامی نمائندوں کی عدم توجہی کے باعث تنزولی کا شکار ہیں،انجینئرنگ یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹس کی کمی ہے۔
شہید سکندر یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا،جھالاوان میڈیکل کالج میں پروفیسروں کی کمی ہے،بوائز اور گرلز ڈگری کالجوں میں ہوسٹلیں کھنڈرات کا منظر پیس کر رہے ہیں،جبکہ پڑھانے کے لئے پروفیسروں و لیکچروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے،دیہی علاقوں کے پرائمری،مڈل اور ہائی سکولوں میں سہولیات کا فقدان ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں ں ے خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے نائب صدر خالد بلوچ،خضدار زون کے صدر آصف بلوچ اور یونیورسٹی کے یونٹ سیکرٹری خیر جان دلاوری بھی موجود تھے بلوچ ایکشن کمیٹی کے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح خضدار میں بھی تعلیمی صورتحال میں نظر رکھی ہوئی ہے آج ہم ضلع خضدار میں تعلیمی پستی شرح تعلیم میں اضافہ نہ ہونے کی اسبات بیان کر رہے ہیں۔
انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کے قیام کو 31 سال مکمل ہو گئے ہیں مگر ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ 31 سال کا عمر پانے والا یہ ادارہ ابھی تک صرف چھ ڈیپارٹمنٹس پر مشتمل ہے اس کے ہم عصر تعلیمی اداروں میں آج ڈیپارٹمنٹوں کی تعداد درجنوں کو پہنچ چکی ہے اسی طرح جھالاوان میڈیکل کالج جہاں کلاسیں تو ہو رہی ہے مگر پروفیسروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس کالج سے منسلک ٹیچنگ ہسپتال بھی مسائل کا شکار ہے کالج میں لیبارٹریز نہیں ہیں۔
جب ایک میڈیکل کالج میں لیبارٹری نہیں ہونگے سہولیات نہیں ہونگے اس ادارے میں زیر تعلیم ڈاکٹروں کا مستقبل اور معیار کیا ہو گا ہمیں خدشہ ہے کہاگر جھالاوان میڈیکل کالج کے مسائل کے حل پر توجہ نہیں دیا گیا تو اس ادارے کی ڈگری پر سوالات اٹھ سکتے ہے۔
شہید سکندر یونیورسٹی خضدار کی تعمیر میر چاکر خان یونیورسٹی سبی سے پہلے شروع ہوا اب چاکر خان یونیورسٹی سبی میں کلاسیں شروع ہو چکی ہے مگر شہید سکندر یونیورسٹی خضدار میں کلاسوں کا آغاز نہیں ہو سکا ڈگری کالج خضدار جس کا شمار بلوچستان کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے ڈگری کالج میں پروفیسروں اور لیکچراروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہیں،ہوسٹل کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے