|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبرسابق ایم این اے میررؤف مینگل نے کہاہے حالیہ دنوں بلوچستان ہائی کورٹ نیوزیراعلٰی کے غیرقانونی فیصلوں میں ان کے تمام غیرمنتخب معاونین خصوصی کوہٹانے کافیصلہ دیتے ہوئے تمام مراعات اخراجات تک واپس کرنے کاحکم دیا
جس پربجائے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال اپنی آئینی حیثیت اوربلوچستان کے عوامی مفادات وپارلیمان کی قواعد وضوابط کاخیال رکھتیاٹھارویں آئینی ترمیم کے بعدبلوچستان کے حقوق کا دفاع کرتے لیکن اب ایک اورغیرقانونی فیصلہ جس کے روح سے دسویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے تکنیکی رکن کی نامزدگی کے بجائے ادیب و دانشور جاوید جبار کی نامزدگی کردیاہے
جبکہ محکمہ خزانہ اوردیگرکسی کوعلم نہیں جس پرسب حیران ہیں کیونکہ جاویدجبار قابل احترام ہیں لیکن متعلقہ فیلڈ کیلئے ان کی خدمات پیش کرناتکنیکی اعتبار سے درست نہیں کیونکہ جاوید جبار جو کہ بنیادی طور پر ادیب دانشو ہیں انہیں حکومت بلوچستان نے دسویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے بلوچستان سے غیر سرکاری رکن نامزد کردیا ہے
جبکہ اس نامزدگی کیلئے ہمیشہ تکنیکی طور پر صوبے ملک کی معیشت مالیات اور اقتصادیات پر گہری نظر اور دسترس رکھنے والی شخصیات کی نامزدگی ناگزیر سمجھی جاتی ہے ہمیشہ سے بلوچستان کے مقدمہ کوسلیکٹڈنمائندگی کے ذریعے صحیح طورپرپیش کرنے کیلئے ماہر اقتصادیات سیاسیات ومعاشیات کو نامزدنہیں کیاگیاہے
جہاں بیٹھ کرباقی صوبوں اوروفاق کیسامنے بلوچستان کے بنیادی اشوزاورمسائل کوٹھوس اندازمیں رکھاجاتااس طرح کے فیصلوں کی وجہ سے بلوچستان سترسالوں اپنا حصہ صحیح وصول نہیں کرپارہاہے بلوچستان پرہمیشہ حقائق حالات متعلقہ شعبوں کے بجائے سلیکٹڈ سفارش غیرمعیاری امورسینابلدلوگ ہی بلوچستان کی نمائندگی کوتاراج کرتے چلے آرہے ہیں
سی پیک سیندھک ریکوڈک گولڈپراجیکٹ گڈانی پاورپر اجیکٹ گیس بجلی سمیت شعبوں پربلوچستان کوصحیح حق نہیں مل رہاہیاٹھارویں ترمیم کی کسی بھی پہلوپرعملداری نظر نہیں آرہی ہے جس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ بلوچستان کے قومی مقدمہ اورحقوق کی جنگ لڑنامحال حقوق کادفاع تک ممکن نہیں ہوتا
انہوں بلوچستان کے پارلیمانی رہنماؤں وجماعتوں سیاپیل کی کہ وہ اس اہم غیرمعیاری اور فنانشلی شعبہ سے ہٹ کرغیرسرکاری رکن کی دسویں این ایف سی ایوارڈ کی نامزدگی کے فیصلے پرمشترکہ موقف اورمضبوط لائحہ عمل وضع کریں اوراس فورم پربلوچستان کی حقوق کوٹھوس بنیادوں پراٹھائیں اوراس فیصلے کوپارلیمنٹ عوامی دباؤ اورآئینی چیلینجزسیواپس کروایا جائے