بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کو ہردور میں دہرایا گیا، ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہربار یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو یقینا اس پرتعجب کرنا احمقانہ بات ہے کیونکہ بلوچستان ملک کا نصف حصہ اور ایک بڑی اکائی ہے جس سے ناواقفیت مرکزی حکومتوں کی نااہلی ہے کیونکہ آپ اپنے ہی ملک کے ایک بڑے حصہ کے لوگوں کی محرومیوں اور پسماندگی سے اس قدر انجان ہیں تو ملکی انتظامی امور کو چلانے کی صلاحیت کہاں سے آئے گی، جو اندرونی معاملات کو حل نہیں کرسکتے تو بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ان کے پاس کیا پالیسیاں ہونگی۔
بدقسمتی سے بلوچستان کے مسئلہ کو جب بھی سیاسی حوالے سے حل کرنے کیلئے قوم پرست جماعتوں نے کوششیں کیں اور تمام مسائل کو سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل وطریقہ کار کی واضح حکمت عملی بھی بتائی تب بھی حکمرانوں نے بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیابلکہ دیوار سے لگانے کی کوشش کی اور نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ بلوچستان میں مسائل کس حد تک بڑھ چکے ہیں۔مرکز میں بننے والی ہر مرکزی جماعت نے اقتدار کی بھاگ ڈور سنبھالی تو سب سے پہلے بلوچستان کے ساتھ ہونے والے ظلم وزیادتی پر معافیاں مانگی اور مسئلہ کو حل کرنے کے وعدہ کئے۔
مگر چند ہی ماہ کے دوران اپنے ہی وعدوں سے مکر گئے،بجائے ازالہ کے مزید حالات کو سنگینی کی طرف لے گئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے جو نکات پی ٹی آئی قیادت کے سامنے رکھے وہ تمام قانون اور آئین کے مطابق ہیں جن میں کوئی بھی ایک ایسا نکتہ موجود نہیں جو آئین کے برعکس ہو مگر بدقسمتی سے دو سالوں کے دوران بقول بلوچستان نیشنل پارٹی کے لیڈران کو محض طفل تسلیاں دی گئیں۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی تقریر کے دوران تحریک انصاف اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ہم ایوان میں موجود رہیں گے۔
اور اپنی بات کرتے رہیں گے۔سرداراختر مینگل کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت نے ہمارے ساتھ بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے معاہدہ کیا تھا، کیا ان معاہدوں پر عملدرآمد کیا گیا؟ اس معاہدے پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور یار محمد رند کے دستخط ہیں۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہم کوئی کالونی نہیں ہیں ہمیں اس ملک کا شہری سمجھا جائے۔ ہم نے دو سال انتظار کیا لیکن ابھی بھی وقت مانگا جارہا ہے۔سرداراختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور ہم نے اسے سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے نکات سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونے تھے۔
لیکن ہمیں ساتھ لے کر تو چلا جائے۔ بہرحال دو سالوں کے دوران اگر چند نکات پر بھی عملدرآمد کیاجاتا تو یقینا بلوچستان کے عوام میں موجود بے چینی دور ہوتی اور امید پیدا ہوتی کہ اب بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے لیاجارہا ہے مگر دو سال کے عرصہ میں کچھ نہ کرنے کے بعد بھی پھرسے وہی مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا حیران کن بات ہے، جو مسائل حل نہیں ہورہے ان نکات پر دستخط کرنے ضرورت کیا تھی محض مرکز میں حکومت بنانے کیلئے پوائنٹ اسکورنگ پوری کرنی تھی جو کہ وفاقی حکومتوں کا پرانا وطیرہ رہا ہے جب ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو بلوچستان کے عوام کے جذبات سے کھیلاجاتا ہے۔
بہرحال اس بار صورتحال مختلف دکھائی دے رہی ہے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سردار اختر مینگل سے ملاقات کی تو اس پر اخترمینگل نے واضح مؤقف اپناتے ہوئے کہاکہ دوبارہ حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے،دو سال میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور اس طرح یہ بیٹھک بھی کارآمد نہیں ہوسکی، شنید ہے کہ صادق سنجرانی ملاقات کااحوال اور تحفظات سے وزیراعظم کو آگاہ کرینگے جوکہ پہلے سے ہی ان کے علم میں ہے کہ چھ نکات پر کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی بھی سردار اختر مینگل سے ملاقات کرینگے۔بہرحال اس بار بی این پی نے انتہائی سخت مؤقف اپنایا ہے۔
اور برف اتنی جلد پگھلتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ سردار اختر مینگل نے اسمبلی فلور پر واضح طور پر علیحدگی کا اعلان کیا ہے، ایک قبائلی سردار کی حیثیت سے بھی وہ اپنے قول وفعل کے پابند ہیں چونکہ اس سے قبل صرف ناراضگیوں کا اظہار بی این پی کرتی آئی ہے اور تحفظات دور کرنے کے حوالے سے بات کرتی آئی ہے لیکن اعلانیہ طورپر حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔سردار اختر مینگل نے نواب اکبرخان بگٹی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس وقت بھی ہماری جماعت نے احتجاجاََ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفیٰ دیا تھا اور اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
سردار اختر مینگل کا یہاں اس واقعہ کا مثال دینا یقینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بی این پی دوبارہ وفاقی حکومت کی حمایت نہیں کرے گی،اب یہ وزیراعظم عمران خان پر منحصر ہے کہ چند ایسے اہم اقدامات اٹھائے جن کے نتائج بھی نظرآئیں، جن چھ نکات کو پورا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ان پر عملدرآمد ہنگامی بنیادوں پر کیا گیا تو یقینا بی این پی دوبارہ حکومت کے ساتھ چلنے کے حوالے سے سوچ بچار کرے گی، اگر بی این پی دوبارہ بغیر کسی پیشرفت کے مرکز ی حکومت کی حمایت کرے گی تو بلوچستان میں سیاسی حوالے سے اسے شدید نقصان ہوگا۔
جس سے بی این پی کی قیادت بخوبی واقف ہے کہ اس کا شدید ردِعمل بلوچستان کے عوام سمیت ان کے حریف جماعتوں کی جانب سے آئے گا۔امید ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو اس کے آئینی وقانونی حقوق دینے کیلئے اقدامات اٹھائے گی تاکہ وفاق اور بلوچستان کے درمیان موجود فاصلے کم ہوجائیں۔