|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2020

پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ اور مضبوط تعلقات ہیں صرف سی پیک نہیں بلکہ اس سے قبل بھی دونوں ممالک میں تجارتی وسفارتی حوالے سے بہترین دوستی رہی ہے جوسی پیک کے بعد مزید مضبوط ہو کر سامنے آئی ہے۔ چین دنیا کی اس وقت دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکی ہے۔چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، پاکستان کا مشکل وقت میں ساتھ دینے کے حوالے سے بھی مثالیں موجود ہیں حال ہی میں سعودی عرب کو رقم دینی تھی تو اس میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا۔

خطے میں بدلتی سیاسی ومعاشی صورتحال کے حوالے سے بھی نئی صف بندی کو دیکھاجائے تو چین نے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا جہاں پہلے بھارت اس منصوبہ میں ایران کے ساتھ شامل تھا گوکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ چین خطے میں اپنے اتحادی اور بلاک کو مزید مضبوط بنانے کیلئے عملی طور پر سرگرم ہے تاکہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کیاجاسکے۔ گزشتہ روز پاکستان اورچین نے اتفاق کیا کہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا اور مشترکہ کاوشیں بروئے کار لائی جائیں گی۔ یہ اتفاق رائے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی اپنے چینی ہم منصب وانگ ژی سے ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔

ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، خطے میں امن و امان کی صورتحال اور پاک چین راہداری سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے دورہ چین کی خصوصی دعوت پر چینی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت، پاک چین دوستی کو مزید مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری فیز ٹو کے منصوبوں کی بروقت اور جلد تکمیل اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں 13 ارب ڈالرز کے منصوبوں سے دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعاون مزید مستحکم ہو گا۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے اپنے چینی ہم منصب کو آگاہ کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بھارت کی ہندوتوا پالیسی پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔وزیر خارجہ نے دوران ملاقات کہا کہ مشرقی لداخ میں بھارت کا یکطرفہ اقدام اس کے توسیع پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے افغان امن عمل اور اس ضمن میں اب تک ہونے والی پیشرفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے خلوص نیت سے مصالحانہ کاوش کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان شروع سے افغان مسئلے کے پرامن سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتا آ رہا ہے۔ بہرحال دوسری جانب افغانستان پر امن کے حوالے سے بھی زور دینا ضروری ہے کیونکہ افغانستان میں دیرپا امن کے بغیر خطے میں معاشی وسیاسی استحکام میں مشکلات پیش آسکتی ہیں امن معاہدے پر دونوں فریقین کی جانب سے پیشرفت بھی ہورہی ہے مگر بدامنی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں جوکہ آنے والے وقت میں امن معاہدے کیلئے خطرہ ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان اور چین مل کر عالمی سطح پراس اہم مسئلہ پر کردار ادا کریں تاکہ افغانستان میں دیرپاامن قائم ہوسکے۔اس کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ مستقبل میں خطے میں معاشی حوالے سے مثبت تبدیلیاں رونما ہونگی جوکہ یہاں کے ممالک کیلئے معاشی حوالے سے نئے راستے کھولنے کا سبب بنے گا۔