|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2020

پاکستان میں نوجوانوں کاکھیلوں سے وابستگی جنون کی حد تک ہے شاید ہی کوئی ایسا گیم ہوجو دنیا میں کھیلاجائے اورہمارے ہاں نہیں،ہمارے نوجوان کھیلوں میں انتہائی باصلاحیت ہیں خاص کر فٹبال تو ملک کے ہر حصہ میں بہت ہی زیادہ نہ صرف کھیلاجاتا ہے بلکہ اس کے شائقین بھی بہت زیادہ ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فٹبال کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو دینا چاہئے تھااور ابھی تک صورتحال اسی طرح ہے جبکہ ایشیاء کے بیشتر ممالک کی طرف ہم دیکھیں تو فٹبال کے کھیل پر سب سے زیادہ نہ صرف توجہ دی جاتی ہے بلکہ اس کھیل پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اسکا معیار عالمی سطح پر رکھا جاتا ہے۔

جس کی بڑی وجہ فٹبال کے کھلاڑیوں کو وہ تمام تر سہولیات فراہم کرنا ہے جس میں خاص کر ان کے معاشی مسائل ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے کلبز بنائے گئے ہیں جہاں پر کھلاڑیوں کو باقاعدہ معاہدوں کے ذریعے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کیلئے بڑی رقم دی جاتی ہے اور اس طرح ایک کھلاڑی کی تمام تر توجہ اپنی صلاحیتوں پر مرکوز رہتی ہے جس کی واضح مثال ایشیائی ٹیموں کی بہترین کارکردگی کے ذریعے فٹبال ورلڈ کپ میں شمولیت اور دنیا کے بہترین ٹیموں کے سامنے شاندار کھیل کا مظاہرہ ہے، جنوبی کوریا، جاپان، ایران جیسی ٹیموں نے عالمی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں بھی باصلاحیت فٹبال کے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ماضی میں ڈھاکہ کلب یا پھر بھارت میں میگا ایونٹ فٹبال کے منعقد ہوتے تھے تو پاکستان کے فٹبالرز کو زیادہ ترجیح دی جاتی تھی اور انہوں نے وہاں جاکر اپنے کھیل کے جوہر دکھائے، آج بعض بزرگ کھلاڑی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور چند انٹرنیشنل کھلاڑی اگر زندہ ہیں تو ان کی حالت زار دیکھی جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ جو مقام اور درجہ انہیں دینا چاہئے تھا اس سے انہیں محروم رکھاگیا،اب وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ فٹبال کے بیشتر کھلاڑی معاشی صورتحال کی وجہ سے اپنے بہترین کھیل کے دوران فٹبال کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اس پر ضرور سوچ وبچار کرنا چاہئے کہ ایسا کیونکر ہمارے فٹبالرز کے ساتھ ہوتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ پہلے بہت سے فٹبال ڈیپارٹمنٹ تھے آج ان کی تعداد انتہائی کم ہو گئی ہے فٹبال ٹیموں کو ختم کردیا گیا جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نہ صرف بیروزگار ہوگئی بلکہ مایوسی کی وجہ سے اس شعبہ سے دور ہو گئے۔ اب بھی فٹبالرز کا یہی مطالبہ ہے کہ ملک میں موجود جتنے محکموں میں فٹبال ٹیموں کو بند کیا گیا تھا انہیں دوبارہ بحال کیاجائے تاکہ نوجوان فٹبالرز کا اعتماد بحال ہواور وہ صحتمندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں۔

اور منفی سرگرمیوں سے دور رہیں۔ اگر فٹبال پر ہمارے ہاں سرمایہ کاری کی گئی اور میرٹ پر کھلاڑیوں کوقومی ٹیم میں شامل کیا گیا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ چند سالوں میں ہی پاکستان قومی فٹبال ٹیم ایشیاء کپ سمیت ورلڈ کپ میں اپنا بہترین مقام بنائے گی صرف اس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔ بہرحال بلوچستان حکومت کی جانب سے ایک بہترین کوشش کا آغاز کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں 17سال بعد صوبائی حکومت کے زیر اہتمام آل پاکستان چیف منسٹر بلوچستان فٹ بال گولڈ ٹورنامنٹ 2020کا آغاز کیا جارہا ہے۔

جو 3راؤنڈز پر مشتمل ہوگا، پہلے راؤنڈ میں بلوچستان کے مختلف اضلاع کی 24ٹیمیں حصہ لیں گی جن میں سے بہترین 6ٹیمیں اگلی راؤنڈ میں ملک کے دیگر صوبوں کے ساتھ کھیلیں گی جبکہ دوسرے راؤنڈ سے اگلے راؤنڈ میں کوالیفائی کرنے والی ٹیمیں 21اکتوبر سے ملک کے مختلف ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کے ساتھ نبردآزماں ہوں گی۔ مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ کا اس ایونٹ کے متعلق کہنا ہے کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ بلوچستان میں بھی عالمی سطح کے کھیلوں کی سرگرمیاں ہورہی ہیں، بلوچستان میں امن وامان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے 17سال سے کھیل کے میدان غیر آباد رہے۔

کھلاڑیوں کو مثبت سرگرمیوں اور کھیلوں میں حصہ لینے کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے کھیل کا شعبہ تباہی سے دوچار تھا۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی وزیراعلیٰ کے وژن کے مطابق صوبے میں کھیلوں کی ترویج کے لئے اقدامات کا سوچاہے۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے اس اقدام کو یقینا ہر جگہ پذیرائی مل رہی ہے خاص کر فٹبالرز اور شائقین فٹبال میں کافی جوش اورولولہ دکھائی دے رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ میگاایونٹ بہترین انداز میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا مگر فٹبال کے کھلاڑیوں اور کوچز کے اہم مسئلہ پربھی ضرور توجہ دینا چاہئے کہ ان کے روزگار کا مسئلہ حل ہوسکے۔

جس میں صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کرے تاکہ پاکستان میں عالمی معیار کے کھیل کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے فٹبالرز عالمی کلبوں میں جاکر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاسکیں جس سے بڑا فائدہ ملکی معیشت کوبھی ہوگا کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بڑی تعداد فٹبال کے کھیل میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔