اس میں کوئی شک نہیں کیا کہ ن لیگ تین مرتبہ عروج و زوال دیکھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ ن لیگ کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، تین بار ملک کے وزیراعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کر کے بھارت،اسرائیل، برطانیہ،امریکہ اور عرب ممالک کے میڈیا سے داد وصول کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ن لیگ کی مرکزی قیادت میں اضطراب اور مایوسی ہر ذی شعور اور فرض شناس انسان کو واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ اس اضطراب اور مایوسی کی وجوہات یہ ہیں کہ اب ان کو عدالتوں سے، اسٹیبلشمنٹ سے اور حکومت وقت سے این آر او نہیں مل رہی،اب وہ اپنے لیے ایسی صورت حال پیدا کرتے جا رہے ہیں، جس کا اثر ان کی سیاسی ساکھ کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی پر بھی پڑ سکتا ہے۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جو ووٹ کی عزت اور جمہوریت بچاؤ کیلیے چلائی جا رہی ہے۔
اس میں جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات کو نہاد خاطر رکھا جا رہا ہے۔اس تحریک میں پاکستانی عوام کو اداروں کے خلاف اکسایا جا رہا ہے،اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے،آزاد بلوچستان یعنی ریاست کے اندر ریاست بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
پی ڈی ایم کے زیر اہتمام ہونے والے گوجرانوالہ اور کوئٹہ جلسے میں جس طرح میاں محمد نواز شریف نے پاکستان آرمی کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو براہ راست مخاطب کر کے قومی سلامتی کے اداروں کی توہین کی۔
جس طرح میاں محمد نواز شریف نے قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا اس کی اجازت پاکستان کا آئین کسی صورت بھی نہیں دیتا۔جب کہ نواز شریف خود جنرل جیلانی اور سابق آرمی چیف جنرل ضیا الحق کے ذریعے سیاست میں داخل ہوئے۔1981 میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دوران میں وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اس کے بعد 1988 کے انتخابات میں جنرل جیلانی اور جنرل ضیاالحق کے ایما پر بننے والی جمہوری اسلامی اتحاد سے مل کر وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔
یہاں سے ان کی سیاست کے اتار چڑھاؤ شروع ہو جاتے ہیں جو اب تک جاری ہیں۔میاں محمد نواز نے پانچ آرمی چیف لگائے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ان کو پسند نہیں آیا۔یہاں تک کہ اپنے ہی لائے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی جھگڑا ہو گیا اور قتدار سے نکلنا پڑا۔پیپلز پارٹی کے زیراہتمام کراچی میں ہونے والے جلسے میں میاں محمد نواز شریف کو تقریر نہ کروا کر پاکستان پیپلزپارٹی نے بہت اچھا اقدام کیا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ جمہوریت کی علمبردار رہی ہے وہ اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر اپنی بچی ہوئی بقا کو کسی صورت ختم کرنا نہیں چاہتی۔
وہ ایک مخصوص حد تک پی ڈی ایم کے ساتھ ہے اور وہ اپنی اس حد کو کبھی کراس نہیں کرے گی۔ آنے والے وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور کچھ دوسری پارٹیاں یہ مؤقف بھی اپنا کر پی ڈی ایم سے مستعفی ہو سکتی ہیں،کہ اب ن لیگ کی اداروں سے ذاتی لڑائی شروع ہو گئی ہے جس میں نواز شریف براہ راست سیکورٹی ادروں کو اور اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں، اس لیے اب ہم مزید آگے نہیں چل سکتے۔کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جس سے سندھ میں موجود ان کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہو۔
جس طرح آج کل سندھ میں گورنر راج لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اداروں کا احترام کرتی آئی ہے،اور یہی جمہوریت کا حقیقی حسن ہے۔اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اگلا جلسہ 22 نومبر کو اے این پی کے زیراہتمام پشاور میں ہونے جا رہا ہے پھر 30 نومبر کو ملتان میں جلسہ ہو گا جس کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کریں گی۔اس کے بعد 13 دسمبر کو ن لیگ کی زیرسرپرستی لاہور میں جلسہ ہوگا ن لیگ کے مطابق یہ جلسہ ریفرنڈم ثابت ہوگا۔
میاں محمد نواز شریف صاحب جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔میاں محمد نواز شریف جس کو جنرل جیلانی کی سفارش پر پنجاب کی سیاست میں لایا گیا انہیں وزارتیں دی گئیں اب وہ کیسے اتنا بدل گیا۔جب کہ نواز شریف صاحب تو یہ مؤقف رکھتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق کو بھی ان کی عمر لگ جائے۔ یہ میاں محمد نواز شریف کی سیاست کا وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے اداروں کو ہمیشہ سے اپنے نیچے لگائے رکھنے کی کوشش کی۔جب بھی کسی ادارے نے ان کی بات کو ٹھکرایا تو انہوں نے اپنی روایتی سیاست کی طرح اداروں کو ٹارگٹ کیا۔
اداروں کو تنقید کا نشان بنا کر ان کی توہین کی یہاں تک کہ 1997 میں ایک سماعت کے دوران نواز شریف نے اپنے حامیوں کے ذریعے عدالتی کاروائی کو متاثر کرنے کیلیے دھاوا بلوا دیا۔ اس افراتفری کے دور میں وزیراعظم نواز شریف نے صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو معزول کر دیا گیا۔شاید یہی وجوہات ہیں کہ وہ دو دفعہ اپنا دور حکومت مکمل نہیں کر سکے۔ نواز شریف ایسی طاقت مانگتے ہیں جہاں کوئی پوچھنے والا نہ ہو جب کہ ریاست اداروں کے ذریعے چلتی ہے۔
اور اداروں کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں انہیں کسی صورت بھی دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا۔دوسری طرف ادارے حکومتوں کے انڈر کام کرتے ہیں۔حکومت اور اداروں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ن لیگ کی مرکزی قیادت بجائے اس کے کہ پاکستانی سیکورٹی کے اداروں سے لڑ کر غیر اور ملک دشمن قوتوں کی ہیڈ لائنز بنیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ جمہوریت کی بات کریں، ووٹ کی عزت کی بات کریں، بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف حکومتی پالیسیوں پر تنقید کریں تاکہ آنے والے وقت میں ان کیلیے پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو،جیسا کہ ایک مشہور محاورہ ہے کہ شیشے کے گھر میں رہ کر دوسروں پر پتھر پھینکا نہیں کرتے۔