ملک کے بیشتر علاقوں کی ترقی کا دارومدار معاشی پالیسیوں پر منحصر ہے اور اسی کی بنیاد پرترقی کاجائزہ لیاجاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں ترجیحات کیا ہیں اور کس شعبہ میں سرمایہ کاری سب سے زیادہ کی جارہی ہے جبکہ ملک کے اندر پیداواری صلاحیت اور معدنی وسائل سے کس حد تک براہ راست استفادہ کیاجارہا ہے اور اسی طرح ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایاجارہا ہے۔ بہرحال اب تک صورتحال اتنی بہتر نہیں ہے اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح ملک میں بھی معاشی صورتحال اچھی نہیں ہے مگر کوششیں کی جارہی ہیں کہ کورونا وائرس کے پیش نظر ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہ لگاتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھاجائے۔
جس کا اظہار ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز لاہور میں میڈیا کے نمائندگان کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا اور یہ بہترین فیصلہ ہے کہ ہمارے یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے اور بیشتر لوگوں کے روزگار کا ذریعہ روزانہ کی اجرت پر ہے اگر کاروباری مراکز کو بند کیاجائے گا تو ایک نیا بحران پیدا ہوگا جوکہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران دیکھنے کوملاتھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے کورونا سے یومیہ اموات 50 سے بڑھ چکی ہیں۔ کورونا کیسز میں اضافے سے اسپتالوں پر پریشر بڑھ رہاہے۔
احتیاط نہ کی گئی تو اسپتالوں پر پریشر کے علاوہ معاشی حالات بھی بگڑ سکتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فیکٹریز سمیت روزگار دینے والے مراکز بند نہیں کریں گے۔ کورونا سے بچاتے ہوئے لوگوں کو بھوک سے نہیں مارسکتے۔ کسی کو بیروزگار نہیں کرسکتے۔ کاروبار ایس اوپیز کے تحت ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے کہا کہ مشکل سے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں، ہمیں احتیاط کرنی ہے۔ پاکستان واحد ملک تھا جس نے رمضان میں بھی مساجد کو بند نہیں کیا۔ ایک بار پھر علماء سے اپیل کرتا ہوں کہ اس وقت احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے جلسے منسوخ کیے۔
ایس اوپیز پرعملدرآمد سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا بھی حکم ہے۔ اپوزیشن والے جتنی مرضی جلسے جلوس کریں،این آراو نہیں ملے گا۔ اپوزیشن لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فیکٹریز سمیت تجارتی مراکز کو بند نہ کرنے کے فیصلہ کو عوامی سطح پر سراہا جارہا ہے کیونکہ عوام کی بڑی تعداد کو یہ خدشہ ہے کہ اگر کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار بند کیاگیا تو انہیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا۔ایک تو مہنگائی سے پہلے ہی عوام شدید پریشانی سے دوچار ہیں آئے روز اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
جبکہ آمدن اتنی محدود ہے کہ گزربسر قلیل آمدنی سے کررہے ہیں۔بہرحال حکومت کوعوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے معاشی پالیسیوں پر غور کرنا چاہئے کیونکہ ابھی تک معاشی پالیسی کی سمت بہتری کی جانب گامزن نہیں ہے جس سے یہ توقع کی جائے کہ لوگوں کو روزگار کے ذرائع میسر آئینگے۔اس لئے ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کیلئے ان شعبوں پر ترجیحی بنیاد پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں نہ صرف روزگار کے ذرائع پیدا ہوں بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہو۔جہاں تک جلسے جلوس کاتعلق ہے۔
تو اس حوالے سے پہلے بھی اس بات پر زور دیا جاتارہا ہے کہ نیشنل ڈائیلاگ کیاجائے،سیاسی جماعتوں کومل کر اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے کردار ادا کرنا چائیے، اس دوران سب کو ایک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام برقرار رہ سکے دونوں طرف سے مثبت رویہ ہی مستقبل کے بہتری کافیصلہ کرسکتا ہے مگر ڈائیلاگ کے آثار فی الحال دکھائی نہیں دے رہے۔