بلوچستان میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے اس کا رقبہ کل ملکی رقبے کا 45 فیصد ہے۔بلوچستان میں آپ کو ریگستان ،پہاڑ،جنگلات و جنگلی حیات، میدانی علاقہ جات،سمندراور سمندری حیات، گرم علاقے، سرد علاقے دیکھنے کو ملیں گے۔ بلوچستان میں ہر قسم کے پھل پھول،سبزیاں،باغات وکھیت کلیان موجود ہیں۔ بلوچستان دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام نعمتوں سے مالا مال ہے۔ اگر ایک نظر باغات پر دوڑائی جائے تو آپ کو بہترین سے بہترین پھل اور سبزیاں اس سرزمین پر ملیں گی۔ بلوچستان کی زمین معدنیات سے بھری پڑی ہے۔
جس میں سوئی گیس سرفہرست ہے۔ جو 1952 میں دریافت ہوئی، ریکوڈک جس میں سونے کے ذخائر ہیں، سیندک میں بھی بڑی تعداد میں سونا پایا جاتا ہے، گوادر جو ایک بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اب تو بلوچستان کے 5 اضلاع جن میں موسیٰ خیل، قلات، جھل مگسی، زیارت اور خضدار کے تحصیل کرخ سے بھی گیس دریافت ہوئی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچستان ان تمام خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے محروم ہے۔ اتنے قدرتی وسائل کے باوجود بلوچستان کی عوام آج بھی پتھر کے دور کی زندگی بسر کر رہی ہے ۔ 62 سالوں سے گیس دریافت کرنے والا صوبہ آج بھی گیس سے محروم ہے۔
بلوچستان میں کوئٹہ ا ور چند اضلاع کے علاوہ کسی بھی شہر یا گائوں میں گیس نہیں ۔کوئٹہ میں اگر گیس ہے بھی تو سردیاں آتے ہی گیس پریشر میں کمی کی جاتی ہے بلکہ کچھ علاقوں میں مکمل گیس چلی جاتی ہے۔اسی طرح وفاق گیس کی مد میں بلوچستان کا 21 کھرب کا مقروض ہے۔بلوچستان کے گیس سے باقی صوبے تو مستفید ہو رہے ہیں اس سے دیگر صوبوں میں فیکٹریاں چلتی ہیں، لیکن بد قسمت بلوچستان کی عوام لکڑیاں جلانے پر مجبور ہے۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی،گرمیوں میں بجلی کا نہ ہونا اور بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ پورے صوبے میں جاری رہتا ہے۔
جس کی وجہ سے صوبے کے غریب عوام شدید گرمی میں اذیت برداشت کرتے ہیں۔ بلوچستان میں اگر تعلیم کی بات کی جائے تو آپ کو اس شعبے میں بھی نہ کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارے، نہ اچھا تعلیمی نظام اور نہ ہی اعلیٰ ڈگری یافتہ اساتذہ ملیں گے۔ بچوں کیلئے اسکول کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں، اگر کچھ سکول ہیں بھی تو وہ شدید خستہ حالی کا شکار ہیں۔ یونیورسٹیوں و کالجز کے علاوہ 15 ہزار سکول غیر فعال ہیں اور 18 لاکھ بچے اسکول سے محروم ہیں۔ اگر بات کی جائے بیروزگاری کی تو بلوچستان کے 90 ہزار نوجوان بے روزگار ہیں اور بے روزگاری کی وجہ سے وہ منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔
یا خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔حکومت کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ایران سے پٹرول اور ڈیزل غیر قانونی طریقے سے سمگل ہوتی ہے جب روزگار نہیں ہوگا تو ظاہر ہے نوجوان غیر قانونی کاروبار کرینگے۔ ان کے گھر کے چولہے اسی سے جلتے ہیں۔ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان منشیات جیسے ناسور میں مبتلا ہیں۔ان نوجوانوں کو اس لت سے نجات دلانے کیلئے کوئی بھی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا جارہا۔ یہ منشیات کون فروخت کر رہا ہے؟ ان کے سہولت کار کون ہیں؟ آخر حکومت ان کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کرتی؟ نوجوانوں کیلئے کھیلوں کا بھی کوئی انتظام نہیں۔
اس طرح نوجوانوں کو کھیل سے دور رکھ کر منشیات میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اور ہمارے کھیل کے ہیروز کی بھی قدر نہیں کی جاتی۔ ہمیشہ یہ سننے میں آتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے۔ مگر افسوس بلوچستان میں لوگ نان شبینہ کیلئے ترس رہے ہیں۔اسی طرح اگر ہسپتالوں کو دیکھا جائے تو ہسپتال بھی شدید خستہ حالی کا شکار ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو ادویات باہر میڈیکل سٹور سے خریدنی پڑتی ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے عوام لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
جبکہ ڈاکٹر اپنے سرکاری ڈپٹی سرانجام دینے کے بجائے اپنے کلینک کو زیادہ ٹائم دیتے ہیں تاکہ کچھ زیادہ ہی کما سکیں جو حکومت وقت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ محکمہ صحت کو اتنے فنڈز ملنے کے باوجود عوام کیوں باہر سے ادویات لیتے ہیں؟ اور اگر بات کی جائے پانی کی تو بلوچستان میں پانی بھی نا پید ہوچکا ہے۔ اگر ہوتا بھی ہے تو پینے کے قابل نہیں ۔ کوئٹہ شہر میں صاف پانی کے حصول کیلئے مشکلات درپیش ہیں۔ بی واسا کے ٹیوب ویلوں کا پانی دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔بی واسا کی پائپ لائنیں بوسیدہ ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے پانی کی سپلائی ممکن نہیں۔
اور واسا کی ملی بھگت سے شہریوں کو پانی مہنگے داموں پر سپلائی کی جاتی ہے۔ سی پیک ترقی کے نام پر گوادر پر باڑ لگا کر پنجرہ بنانا مقامی لوگوں کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اگر سڑکوں کو دیکھا جائے تو بلوچستان کے روڈ بھی شدید خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں موٹروے تو دور کی بات ڈبل روڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ امسال 2020 بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی (بی وائی سی ایس) کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 7ہزار سے زائد ٹریفک حادثات ہوئے جن میں بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر 7ہزار 414 ٹریفک حادثات میں 886 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
جبکہ 10ہزار 747 افراد زخمی ہوئے، جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔(بی وائی سی ایس) کی جانب سے مرتبہ کردہ سال 2020ء کے 7ماہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2020ء کے ماہ مئی میں 879 حادثات میں 152افراد جاں بحق جبکہ 1514 زخمی،جون میں 949 حادثات میں 109 جاں بحق جبکہ 1433زخمی، جولائی میں 1099 حادثات میں 123 جاں بحق جبکہ 1462 زخمی،اگست میں 944 حادثات میں 143افراد جاں بحق جبکہ 1470 زخمی،ستمبر میں 1207حادثات میں 128 جاں بحق 1730 زخمی،اکتوبر میں 1025حادثات میں 127افراد جاں بحق جبکہ 1388زخمی اور ماہ نومبر میں 1311حادثات میں 104افراد جاں بحق جبکہ 1750افراد زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچستان کی شاہراہوں پر ہر سال سنگل روڈ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اتنی اموات تو دہشتگردی و کورونا سے نہیں ہوتے جتنے روڈ ایکسڈنٹس میں ہوتے ہیں ۔اور ایک نظر ریلوے کی طرف تو ریلوے کا نظام بھی درہم برہم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلوچستان آپ کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں شدید غریب و لاچار نظر آئے گا۔ 2010 میں 18ویں ترمیم آئی۔ اس 18ویں ترمیم میں یہ طے پایا تھا کہ ہر صوبہ قدرتی اور معدنیاتی وسائل کے حوالے سے اپنے لیے ایک پالیسی بنائیگی۔
لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان میں 2003 سے آج تک کوئی منرل یا قدرتی وسائل کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی گئی۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے لیکن آج بلوچستان میں 82 فیصد غربت، 25 لاکھ بچوں کی بے تعلیمی، 18 لاکھ بے روزگار، 62 فیصد لوگوں کو پانی نہ ملنا، آخر ان تمام مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ آخر کب بلوچستان کی محرومیاں ختم ہونگی۔ ریاست بلوچستان کو ان مشکلات سے نکالنے میں معاون ثابت ہوگا کہ نہیں؟