ملک کے سب سے بڑی آبادی والے شہرکراچی کا قدیم علاقہ لیاری کبھی بھی جرائم سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوسکاہے۔ 7دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود لیاری کے عوام کے حصہ میں قتل وغارت گری، ڈکیتی، منشیات ہی آئے ہیں۔ لیاری میں مختلف ادوار کے دوران بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد پیدا ہوئے جن کی سرپرستی کسی نہ کسی طرح سے مقامی پولیس کرتی آئی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مکمل طور پر کلین چٹ دے رکھی ہوئی تھی کہ وہ لیاری میں ہر قسم کے دونمبر کا کاروبار کرسکتے ہیں۔
جن میں منشیات فروشی، اغواء برائے تاوان، بھتہ وصولی، قتل وغارت گری شامل ہیں۔ لیاری میں جرائم کا آغاز ایوبی آمریت کے دورمیںشروع ہواجس کی بڑی وجہ ایوبی آمریت کیخلاف چلنے والی تحریک کیخلاف متبادل طاقت کی ضرورت تھی تاکہ لیاری کے قدآور سیاسی وعلمی شخصیات کے مدِ مقابل جرائم پیشہ افراد کو کھڑاکیاجائے اور نوجوان طبقہ بجائے سیاسی تحریک کی طرف راغب ہوکر اپنا کردار ادا کرے، انہیں جرائم کی جانب دھکیلاجائے مگر لیاری کے عظیم سیاسی فرزندوں نے ان تمام حربوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے بزرگ رہنماؤں کے ساتھ مختلف ادوار میں جمہوری تحریکوں کا حصہ بنے ۔
بلوچ وانندہ گل سے لے کر نیپ کی تشکیل تک بھرپور طریقے سے اپناکردار ادا کیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیا د بھی یہیں رکھی گئی بلوچستان کے بڑے سیاسی قد آور شخصیات کو کراچی کے بلوچ علاقوں میں زبردست پذیرائی ملی اور لیاری اس کا گڑھ تھا جہاں پرسیاسی وعلمی بیٹھک لگی رہتی تھی یہ وہ کلچر تھا جس نے یہاں کے نوجوانوں کو سیاست، ادب کی طرف راغب کیا اور اسی نوجوان طبقہ نے اپنے بزرگوں کے سائے میں اسٹریٹ ایجوکیشن کو پروان چڑھایا، مگر یہ سب اس طبقہ کو ہضم نہیں ہوسکا جو اول روز سے لیاری کے متعلق منفی پالیسیاں بناتے آئے ہیں۔
جس میں لیاری کے عوام کی دیگر علاقوں میں منتقلی شامل تھی۔ ون یونٹ کی تحریک اور ایوبی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں نے ہر قسم کی اذیت کو برداشت کیامگر پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ مزید سخت رویے اپناتے ہوئے لیاری میں مثبت سرگرمیوں کیخلاف بڑے بڑے مافیاز کو پیدا کرتے ہوئے انہیں مکمل طاقت فراہم کی گئی اور اس طرح سے 2000ء کی دہائی کے دوران لیاری کے معمولی منشیات فروش اورجرائم پیشہ افراد کو پیسہ سمیت جدید اسلحوں کے ذریعے طاقت میں لایا گیا ،یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں بلوچ قوم کے حقوق کیلئے تحریک ایک بار پھر شروع ہوچکی تھی۔
اس لئے یہ خوف زیادہ تھا کہ بلوچستان کے گرم سیاسی ماحول کا حصہ لیاری ہر صورت بنے گا اور تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی اس لئے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے گینگز بنائے گئے اور ہر علاقے کو ایک کریمنل کے حوالے کیا گیا جن کا مقصد منشیات کو عام کرنے سمیت سیاسی سرگرمیوں خاص کر قوم پرستی کی سیاست کرنے والوں کو زیر کرنا تھا۔ مگر 2006ء کے واقعہ کے بعد کراچی کے بلوچ علاقوں میں قوم پرستی کی سیاست مزیدپروان چڑھنے لگی۔ ایک طرف مسلح دہشت گرد اورکریمنلز تھے تو دوسری جانب قوم پرستی کی سیاست سے لیس پڑھا لکھا طبقہ تھا جو سیاسی جدوجہد سے دستبردار ہونے کو کسی صورت تیار نہیں تھا۔
تمام تر دباؤ کے باوجود جمہوریت وترقی پسند نوجوانوں نے ان شرپسند گینگ وار زکے سامنے سرنہیں جھکایا مگر ان گینگزپر اتنی سرمایہ کاری کی گئی کہ بڑے پیمانے پر کراچی کے بلوچ نوجوان طبقہ کو منشیات اور طاقت کالالچ دیکر اپنی طرف کھینچا گیا اس طرح سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گینگ گروپ کا حصہ بن گئی اور قوم پرستی کی سیاست کرنا انتہائی کٹھن ہو گیا کیونکہ گھروں کو جلانا، خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرنا، نوجوانوں کو زدوکوب کرنا، مختلف حربوں کے ذریعے قوم پرستی سے جڑے بزرگ اور نوجوانوں کو اذیت دی جانے لگی ۔
جس کی وجہ سے سیاسی شرفاء اپنی عزت بچانے کیلئے سیاست سے کنارہ کش ہونے لگے اور پھر 2008ء وہ سال ثابت ہوا جب لیاری سمیت کراچی کے تمام بلوچ علاقے کالعدم امن کمیٹی کے زیر اثر آگئے اور یہ سیاہ سفید کے مالک بن گئے جنہوں نے بلوچوں کی ایک پوری نوجوان نسل کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ 2013ء کو نوازشریف کی حکومت آئی تو کراچی کو ایم کیوایم کے دہشت گردوں سے صاف کرنے کافیصلہ کیا گیا وہیں کالعدم تنظیم امن کمیٹی کے دہشت گردوں کیخلاف بھی بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
مگرلیاری میں گینگ وار شروع ہوا جہاں پر امن کمیٹی کے دہشت گردوں نے اپنے اپنے دھڑے بناکر علاقے قبضے میں لینا شروع کئے اور اس دوران گینگ وار کے دہشت گرد کم جبکہ عام شہری زیادہ ان کی جنگ میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ بہرحال آپریشن کے ذریعے لیاری کے بعض اہم دہشت گرد مارے گئے مگر تھوڑی بہت جان بچاکر بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اب ایک بار پھر لیاری میں منشیات کے اڈے جگہ جگہ دکھائی دے رہے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میںپھر گینگ گروپس بن سکتے ہیں۔
جو پھر کراچی کے بلوچ علاقوں میں پھیل کر نوجوانوں کو تباہی کی جانب دھکیلنے کا سبب بنیں گے اور جو مثبت سیاسی، ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیاں چل رہی ہیں پھر سے ماندپڑجائینگی یعنی پھر ایک نسل کی تباہی کا اندیشہ ہے۔ خدارا لیاری کے حوالے سے رویوںمیں تبدیلی لائی جائے ،کراچی کے بلوچ تو ویسے ہی تیسرا اسٹیک ہولڈر ہونے کے باوجود کسی کھاتے میں نہیں آتے۔
نہ ہی وہ کراچی کے کاروبار میں شراکت دار ہیں اور نہ ہی بیوروکریسی میں ،چھوٹی ملازمتیں بھی ان کے نصیب میں مشکل سے آتی ہیں۔لہذا اس غریب بستی کو جینے کا حق دیاجائے اور ایک خدشہ جوگینگ گروپس کے حوالے سے موجود ہے اس کو سراٹھانے نہ دیا جائے ،کراچی کے بلوچ امن اور سکون چاہتے ہیں کوئی بڑی ترقی کامطالبہ ان کا نہیں ہے۔