انتیس دسمبر کو ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے نے اس تاثر کو مزید مستحکم کر دیا ہے کہ استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی باقی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہے۔ گو کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے پی ڈی ایم کے اس فیصلے کی توثیق کردی ہے کہ اکتیس دسمبر تک تمام اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے استعفی اپنے قائدین کے پاس جمع کرائیں گے اور اس فیصلے کے تحت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین پارلیمنٹ نے اپنے استعفی جمع کرا دئیے ہیں۔
لیکن استعفے صرف اپنے قائدین کے پاس جمع کرنا کیا کوئی اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کا ڈھول پیپلز پارٹی دھواں دھار طریقے سے پیٹ رہی ہے؟ جبکہ ن لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی اپنے استعفیٰ اپنے قائدین کے پاس جمع کرا دئیے ہیں، لیکن پیپلزپارٹی ایک تیر سے دو شکار کرنے کی سعی میں لگی ہوئی ہے ایک طرف استعفیٰ اپنے قائدین کے پاس جمع کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی ہے اور یہ اعلان کردیا ہے کہ سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے نہ صرف استعفیٰ دیں گے بلکہ سندھ حکومت کی قربانی بھی دیں گے۔
اور دوسری طرف سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرکے پی ڈی ایم کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات سے پہلے استعفوں کے استعمال کے حق میں نہیں ہے اس فیصلے نے وفاقی وزراء کے ان دعوؤں کو بھی سچ ثابت کردیا کہ پیپلز پارٹی استعفیٰ نہیں دے گی۔ پیپلزپارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ استعفوں کا آپشن کب استعمال کیا جائے گا اس متعلق پی ڈی ایم نے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے لہذا پیپلز پارٹی کی سی ای سی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں بھر پور حصہ لیا جائے گا اور پارلیمنٹ سمیت حکومت سے ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ استعفوں کے آپشن کو کب استعمال کیا جائے گا اس متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا لیکن وفاقی حکومت کے خاتمے کے لئے پی ڈی ایم نے جو روڈ میپ جاری کیا تھا اور احتجاجی جلسوں میں عوام سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام پی ڈی ایم رہنماؤں نے مارچ سے پہلے پہلے حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے کیے تھے کیا وہ سب جھوٹے تھے؟ اسی حکمت عملی کے تحت اپوزیشن جماعتوں کو استعفیٰ جمع کرانے کی آخری تاریخ اکتیس دسمبر تک دی گئی تھی حالانکہ سینیٹ انتخابات مارچ میں ہونے جارہے ہیں ۔
تو کیا ایسی خاص بات تھی کہ دو مہینے پہلے استعفی طلب کئیے گئے تھے؟ پارلیمنٹ کو عضو معطل قرار دے کر اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے وصول کرنے والی اور حکومت و مقتدرہ سے کوئی بات چیت نہ کرنے کا اعلان کرنے والی پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات میں نہ صرف بھرپور حصہ لے گی بلکہ ن لیگ کو بھی اس قومی فریضہ میں حصہ لینے کے لئیے آمادہ کردیا ہے۔ آٹھ دسمبر کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی تھی۔
لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک شریک نواز شریف نے اپنے خطاب میں تجویز پیش کی تھی کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ارکان اپنے استعفیٰ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس جمع کرا دیں جو اسلام آباد پہنچنے والے اپوزیشن لانگ مارچ کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس جمع کرائیں گے اس اجلاس میں شریک تمام جماعتوں نے نواز شریف کی اس تجویز کی حمایت کی تھی جبکہ لاہور جلسے کے اگلے دن چودہ دسمبر کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا تھا کہ اکتیس جنوری تک وزیراعظم عمران خان اگر مستعفی نہ ہوئے۔
تو اگلے دن لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا ہم ان سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں، اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے الیکشن کے اعلان کے بعد کوئی تجویز آئی تو پی ڈی ایم بات چیت کا فیصلہ کرے گی۔ میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک صحافی نے استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی کی سی ای سی کے رکن اعتزاز احسن کے تحفظات سے متعلق بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا تھا جس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کو اعتماد میں لیں گے لہذا سی ای سی کے فیصلے کا پابند میں بھی ہوں گا اور اعتزاز احسن بھی۔
استعفوں سے متعلق پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کو اعتماد میں لینے والے بلاول بھٹو کے بیان کے بعد یہ تاثر مضبوط ہونا شروع ہوا کہ پیپلزپارٹی دو کشتیوں پر سوار ہے وہ پی ڈی ایم میں رہتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو انگیج کرے گی حکومت اور مقتدر حلقوں کے خلاف اپنا بیانیہ بھی جارحانہ رکھے گی، لانگ مارچ میں بھی حصہ لے گی لیکن سینیٹ انتخابات سے پہلے استعفے دینے کے حق میں نہیں ہوگی۔ بیس ستمبر 2020 کو پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والے آل پارٹیز کانفرنس سے قبل اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت گرانے کی جو تحریک بن رہی تھی۔
اس میں لانگ مارچ کے بعد اسلام آباد میں دھرنا سب سے مؤثر محرک تھا اس کے بعد آخری آپشن استعفوں کا تھا لیکن پیپلزپارٹی شروع سے ہی دھرنا دینے کے حق میں نہیں تھی جس کی وجہ سے بیس ستمبر کی اے پی سی کے بعد جو ایکشن پلان کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں دھرنا دینے سے متعلق حکمت عملی شامل نہیں تھی اجتماعی استعفوں کا آپشن ایکشن پلان کا حصہ تھا لیکن آج تک حتمی ڈیڈ لائن نہ دینے کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سی ای سی کے اجلاس میں اس کی توثیق تو کردی لیکن مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا بھی فیصلہ کردیا۔
پیپلزپارٹی کے اس فیصلے کے بعد حکومتی حلقوں میں شادیانے بجنا شروع ہوئے وفاقی وزراء باری باری میڈیا کے سامنے آکر فاتح کی صورت میں اپنے اس دعوے کی تصدیق کرتے رہے کہ “جی ہم تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ پیپلز پارٹی استعفیٰ نہیں دے گی”۔ سینیٹ انتخابات میں تمام اپوزیشن جماعتیں حصہ لیں گی، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کے بعد حکومت کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے اور انھوں نے اب مزید جارحانہ فیصلے کرنا شروع کردئیے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید یہ برملا کہ رہے ہیں کہ سولہ فروری کو جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کا پاسپورٹ ختم ہوگا۔
تو اس کی توسیع نہیں کرائیں گے بلکہ اسے منسوخ کردیا جائے گا اور دوسری طرف انھوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ فوج کے خلاف بات کرنے والوں کو بہتر گھنٹوں کے اندر گرفتار کیا جائے گا جبکہ نیب نے اثاثہ جات کیس میں ن لیگ کے سینئر رہنما خواجہ آصف کو گرفتار کر لیا ہے۔ پی ڈی ایم کی پالیسیوں سے پیپلزپارٹی کے منحرف ہونے کے بعد اس کے بیانیہ کو جو رسوائی ملی ہے لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کا دھڑن تختہ قریب ہے کیونکہ پی ڈی ایم پہلے ہی اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے اختلافات اب تک ختم نہیں ہوسکے ہیں۔
اگر مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر مرکزی قائدین سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہ کرتے اور اس دوری کی شدت کو کم نہ کراتے تو لاہور جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کی شرکت یقینی نہ ہوتی اور اس دن پی ڈی ایم کے بیانیہ کا جنازہ دھوم دھام سے نکل سکتا تھا اور پھر ستائیس دسمبر کے جلسے کے بعد ممکن تھا کہ فاتحہ خوانی بھی ہوجاتی لیکن ن لیگ قیادت کی بروقت تصفیہ طلبی نے معاملے کو کسی حد تک سنبھال لیا۔ جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی کے درمیان سرد جنگ کئی دنوں سے جاری ہے لیکن اس میں شدت کی وجہ وہ آڈیو مسیج ہے۔
جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی کے ایک مرکزی رہنما یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف گڑھی خدا بخش جا کر دھرنا دیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس دھمکی کو بہت سنجیدہ لیا تھا اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد یہ لگ رہا تھا کہ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہوں گی۔ شہید بے نظیر بھٹو کی برسی میں مولانا فضل الرحمٰن کی عدم شرکت کی وجہ بھی وہ کشیدگی ہے جو دونوں جماعتوں کے درمیان موجود ہے اب سونے پر سہاگہ کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرکے مولانا فضل الرحمٰن اور پی ڈی ایم کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے بڑے شاطرانہ انداز میں اپنا یہ پتہ شو کیا ہے انھوں نے فیصلہ کرنے سے پہلے مریم نواز کو اعتماد میں لیا تھا اور ممکن ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پیپلز پارٹی نے قائل کرلیا تھا اس لئے یکم جنوری کو ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کو سخت مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن مولا فضل الرحمٰن پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کے بالکل حمایتی نہیں ہیں بلکہ وہ سینیٹ انتخابات سے پہلے لانگ مارچ اور استعفیٰ دینے کے حق میں ہیں اس لیے اجلاس کے بعد جب مولانا فضل الرحمٰن میڈیا کو بریفنگ دینے پہنچے ۔
تو سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے سے متعلق بات کرنے سے پہلے انھوں نے اپنی توپوں کا رخ مقتدر حلقوں کی طرف موڑ لیا انھوں نے دبے انداز میں یہ دھمکی بھی دی کہ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اسلام آباد کے بجائے پنڈی کی طرف بھی جاسکتا ہے شاید مولانا کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اب ن لیگ بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں ہے اس لیے وہ سیاسی گرما گرمی جو موسم سرما کیے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے حالیہ فیصلے کی وجہ سے سرد مہری کا شکار ہو رہا تھا مولانا اس میں مزید حدت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ سینیٹ انتخابات سے پہلے آخری حربہ یعنی استعفوں کا آپشن استعمال کیا جاسکے۔