افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے، آئے روز بم دھماکے اور خود کش حملے رپورٹ ہورہے ہیں جس پر پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے امن عمل کو نقصان پہنچے گااور پورے خطے میں بدامنی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں اس لئے ان واقعات کو روکنے کی اشد ضرورت ہے، حالانکہ افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے امریکہ اور افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ معاہدے بھی ہوچکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی دونوں اطراف سے طاقت کے استعمال میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔
گزشتہ روزافغان صوبے کنڑ میں دھماکے کے نتیجے میں پولیس کمانڈر سمیت 5 اہلکار ہلاک ہو گئے۔افغان میڈیا کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے دھماکے میں پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں بھی پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تاہم پولیس اہلکار محفوظ رہے، دھماکے میں 3 شہری زخمی ہوئے۔صوبہ قندھار میں بھی کار بم دھماکے میں پولیس فورس کے 12 اہلکار زخمی ہو گئے۔افغان وزارت داخلہ کے مطابق کار بم دھماکا قندھار کے ضلع ارغنداب میں چیک پوسٹ پر کیا گیا۔
ادھر افغان وزارت دفاع کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ ہلمند کے ضلع نوا میں گزشتہ روز کیے گئے فضائی حملے میں طالبان ریڈ یونٹ کے 16 ارکان ہلاک ہوئے۔رواں ماہ کو 2فروری کے روز کابل سمیت افغانستان کے مختلف حصوں میں یکے بعد دیگرے ہونے والوں دھماکوں میں 3 افراد ہلاک اور 7 زخمی ہوگئے تھے۔افغان پولیس کے مطابق کابل میں تین دھماکے کیے گئے یہ تمام دھماکے میگنیٹک ڈیوائس کے ذریعے کیے گئے جس میں انسداد منشیات فورس کی گاڑی سمیت تین الگ الگ گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔کابل کے علاوہ جلال آباد میں بھی دھماکا کیا گیا۔
جس میں فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔اس کے علاوہ صوبے پروان میں بھی ایک دھماکا کیا گیا، طالبان کی جانب سے دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید کی گئی ہے۔گزشتہ مہینے 17جنوری کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسلح افراد کی فائرنگ سے سپریم کورٹ کی دو خواتین ججز جاں بحق ہو گئیں تھیں۔افغان حکام نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مسلح ملزمان نے صبح کے وقت کابل میں سپریم کورٹ کی خواتین ججز پر حملہ کیا جس میں دونوں ہلاک ہو گئیں۔افغان پولیس حکام کے مطابق حملے میں ایک خاتون زخمی بھی ہوئیں۔
بہرحال افغانستان میں دہشت گردی کے ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ امن عمل پر اس طرح کام نہیں ہورہا جس طرح ہونا چاہئے تھا کیونکہ طاقت کے ساتھ ساتھ بات چیت کا عمل نہیں چل سکتا،دونوں فریقوں کی جانب سے اس عمل کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی دہائیوں سے افغانستان جنگ کی لپیٹ میں ہے اور اب تک امن کے حوالے سے خاص اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ طاقت کی پالیسی ہے اگر اسے ترک نہ کیا گیا تو یہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے لہٰذا افغان امن عمل کیلئے فریقین کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ طاقت سے کوئی بھی نتیجہ برآمدنہیں ہوگا بلکہ مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ صرف خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔لہٰذا افغانستان میں امن کے قیام کیلئے عالمی طاقتوں کو براہ راست سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں امن عمل کی جوکوششیں شروع ہوچکی ہیں وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں وگرنہ طاقت کے استعمال سے مزید تباہی پھیلے گی جوکسی کے مفاد میں نہیں۔