|

وقتِ اشاعت :   March 7 – 2021

ممبران کس صف میں؟
سینیٹ انتخاب میں اسلام آباد کی نشست پر حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی شکست اور اپوزیشن امیدوار یوسف رضاگیلانی کی جیت کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کافیصلہ کیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایوان سے 178 ووٹ حاصل کئے جبکہ وزیراعظم منتخب ہونے پر انہیں 176 ووٹ ملے تھے اس طرح انہوں نے پہلے کے مقابلے میں 2 اضافی ووٹ لیے۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک کرپٹ لیڈر شپ کے ساتھ خوشحال نہیں رہ سکتا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بہت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا، پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں شریف اور زرداری ارب پتی بن جائیں۔سینیٹ الیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا مجھے شرمندگی ہوتی ہے کہ یہاں بکرا منڈی لگی ہوئی ہے اور ہم ایک ماہ سے اس کی نشاندہی کر رہے تھے، مجھے حیرت ہوئی کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ بڑا اچھا الیکشن کروایا، اگر یہ الیکشن اچھا تھاتو پتہ نہیں برا الیکشن کیا ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا پہلے اخلاقی طور پر قوم کو تباہ کیا جاتا ہے پھر معاشی تباہی آتی ہے۔

یہاں بھی یہی کچھ ہوا، دنیا میں کوئی ایک قوم بتا دیں جو اخلاقی طور پر اچھی ہو اور تباہ حال ہو اور کوئی قوم اخلاقی طور پر گری ہوئی ہو اور اس کی معاشی حالت اچھی ہو، جب مدینہ کی ریاست اوپر گئی تو کیا ان کے پاس دولت آ گئی تھی؟انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک مہربانی کرے کہ پاکستانی ایجنسیز سے ایک سیکرٹ بریفنگ لے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ سینیٹ الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کے جذبات اپنی جگہ مگر سوال پھر وہی ہے کہ سینیٹ انتخاب میں جن 15اراکین نے بقول وزیراعظم عمران خان کے پیسے لیکر یوسف رضاگیلانی کو ووٹ دیا۔

کیا ان کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی، ان کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں اپنی صفوںسے باہر نکلا؟ قوم کے سامنے ایسے بکاؤ ممبران کے چہرے بے نقاب کئے جو عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے پیسہ لے کر اپنے ذاتی مفادات کے لیے مقدس ایوان کو استعمال کررہے ہیں یقینا اس کا جواب نفی میںآئے گا۔ اور جب اعتماد کا ووٹ حاصل کیاگیا تو یقینا ان کرپٹ ممبران کی رائے دہی بھی اس میں شامل تھی تو کیسے ان 15ممبران کے اعتماد کو ایمان اور خلوص سے تشبیہ دی جائے گی اور ان پر کیسے بھروسہ کیاجاسکتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے چناؤ کے دوران ایک بار پھر یہ اپنے ضمیر کا سودا کرکے اپوزیشن جماعت کے امیدوار کوووٹ نہیں دینگے؟

وزیراعظم عمران خان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کی جوباتیں کررہے ہیں سب سے پہلے اپنی صفوں میں موجود ان کرپٹ عناصر کو نکال دیں بعد میں گھر سے باہر صفائی کی مہم شروع کردیں ۔بدقسمتی سے کرپشن کا یہ کلچر دہائیوں سے چلتا آرہا ہے اور اس کی نشاندہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے بارہا کی جاچکی ہے مگر جب بھی میڈیا حقائق کی بنیاد پر تنقید کرتی ہے تو سیاسی جماعتیں اسے برداشت نہیں کرپاتیں چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہویا اپوزیشن سے ، سب ہی پارسا ہی کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں ۔جب تک تمام ادارے آزادی سے اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرینگے ۔

صرف حکومت یا وزیراعظم انفرادی حیثیت سے کرپشن کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا اور اس کیلئے برداشت ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارے کو متنازعہ بناکر رکھ دیا گیا ہے اور آج ہمارے سیاسی پارلیمانی نظام کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔پھر اس سوال کے سب متلاشی ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے میکنزم کس طرح بنایا جاسکتا ہے جس سے ملک میں دہائیوں سے ہونے والے کرپٹ نظام کا خاتمہ یقینی ہوسکے ، بدقسمتی سے اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا البتہ یہ چورچور کی باتیں اور الزامات کی سیاست چلتی رہے گی۔

جبکہ ملکی نظام مزید ابتری کی طرف بڑھتاجائے گا ۔اگر کچھ کرنا ہے تو حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو مل کر کرناہوگا جو ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے سیاسی محاذ آرائی ملک کو مزید انتشار کی طرف لے کر جائے گا جوکہ ملک کے وسیع ترمفادات کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔