وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح 0.61 فیصد بڑھی جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح 15.35 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران آٹا، چینی، دالیں، گھی، ٹماٹر، چکن سمیت 22 اشیاء مہنگی ہوئیں جبکہ 7 اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 22 میں استحکام رہا۔ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ چکن 21 روپے فی کلو مہنگی ہوئی اور اوسط قیمت 259 روپے86 پیسے پر پہنچ گئی جبکہ چینی کی فی کلو قیمت 59 پیسے اضافے کے بعد 99روپے ہوگئی۔
ادارہ شماریات کے مطابق آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 9 روپے 72 پیسے اضافہ ہوا، گھی 2 روپے 88 پیسے فی کلو ، دال مسور ایک روپیہ فی کلو اور انڈے 61 پیسے فی درجن مہنگے ہوئے۔اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ٹماٹر 7 روپے 85 پیسے فی کلو مہنگے ہوئے، کیلا ایک روپے 49 پیسے، دہی 28 پیسے فی کلو مہنگا ہوا۔ادارہ شماریات کے مطابق حالیہ ہفتے دال چنا، تازہ دودھ، چاول، مٹن اور بیف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں لہسن 16 روپے 42 پیسے فی کلو، پیاز 8روپے 81 پیسے اور آلو 79 پیسے فی کلو سستے ہوئے جبکہ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 9 روپے 48 پیسے سستا ہوا۔
ادارہ شماریات کے مطابق حالیہ ہفتے میں گڑ کی قیمتیں بھی کم ہوئیں۔دوسری جانب کوئٹہ میں سبزیوں کی قیمتوں میں کمی دیکھنے کو ملی ہے ،کوئٹہ میں آٹے گھی اور دالوں کی قیمتوں میں اضافہ برقرار ہے مگر سبزیوں کی قیمتیں کم ہوتی جارہی ہیں ٹماٹر 20 روپے کلو،آلو30،بیگن 40اورکدو50روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔سبزی فروشوں کے مطابق مارکیٹ میں مال کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آرہا ہے جس کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتیں کم ہیں۔ بہرحال ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی مارکیٹوںمیں اشیاء خوردنی کی قیمتوں میںاضافہ ہوجاتا ہے۔
گرانفروش سرگرم ہوجاتے ہیں ذخیرہ اندوزی عروج پر پہنچ جاتی ہے جبکہ ذمہ داران مکمل طور پر غائب ہوجاتے ہیں ۔سرکاری نرخناموں کاجائزہ بھی نہیں لیاجاتا کہ حکومت کی مقررکردہ قیمتوں پر اشیاء فروخت کی جارہی ہیں یا پھر من مانی قیمتوں پر چیزیں فروخت کرکے عوام کا خون چوسا جارہا ہے ۔ماہ صیام کے دوران عوام کی جانب سے یہ شکایت بارہا سامنے آتی ہے کہ اس مبارک ماہ کے دوران گرانفروش وذخیرہ اندوز اس ماہ مبارک کو اپنے لئے منافع کا مہینہ سمجھ کر لوگوں سے دگنی قیمتیں وصول کرتے ہیں جو کہ ایمانی تقاضوں کے برعکس ہے۔
البتہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سستا بازار لگانے کے صرف دعوے نہ کرے بلکہ انہیں فعال کرتے ہوئے ہر اسٹال پر تمام اشیاء رکھ کر عوام کو ریلیف فراہم کرے اور عام مارکیٹوں میں سرکاری نرخناموں کے مطابق اشیاء خوردنی کی فروخت کو یقینی بنانے کیلئے ضلعی انتظامیہ پر باقاعدہ نظر رکھے اور روزانہ کی بنیاد پر ان سے رپورٹ طلب کرے، ایک کمیٹی تشکیل دے جس کی مانیٹرنگ وزیراعلیٰ بلوچستان براہ راست خود کریں تاکہ اس مبارک ماہ کے دوران مہنگائی میں پسے عوام کو اتنا ریلیف مل سکے کہ وہ اپنی افطاری اور سحری کے دوران پریشانی سے دوچار نہ ہوں۔
امید ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ماہ صیام کے دوران عوام کی مشکلات میں کمی لانے کیلئے ماہ صیام سے قبل ہی کمیٹیاں قائم کرکے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرے گی اور ساتھ ہی سستے بازار لگانے کا اہتمام کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرے گی تاکہ ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔