مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے اتحادی اپوزیشن جماعتوں کو لانگ مارچ کی تیاری کا مشورہ دے دیا۔اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا جس میں اے این پی کے اعلان کے بعد کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس کے علاوہ مسلم لیگ ن نے پی ڈی ایم کی دیگر 8 جماعتوں سے بھی رابطہ کیا جنہوں نے اتحاد برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روزاے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔اے این پی کے رہنماء امیر حیدر ہوتی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ شوکاز نوٹس پیپلز پارٹی اور اے این پی کو نہیں ملنا چاہیے تھا۔
ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے، مولانا صاحب جب صحت یاب ہو جاتے تو پھر وضاحت مانگ لیتے۔ جو وضاحت انہیں چاہیے تھی وہ ہم دے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ مخصوص جماعتیں پی ڈی ایم کوذاتی مفاد کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہیں، ذاتی ایجنڈے کیلئے پی ڈی ایم کا ساتھ نہیں دے سکتے۔امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ نظرآرہا ہے پی ڈی ایم کودوسری طرف لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کی جانب سے شوکازپرپارٹی رہنماؤں کو سخت جواب دینے کی ہدایت کر دی ہے۔
شیری رحمان، پرویز اشرف، فرحت اللہ بابر، نیئر بخاری جواب تیار کریں گے۔ بہرحال پی ڈی ایم اتحاد کے متعلق پہلے سے ہی یہ رائے موجود تھی کہ یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی کیونکہ اتحاد میںشامل پارٹیوں کی نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور یہ صرف حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے اپنا کام کرے گی کیونکہ حکومت کو گھر بھیجنے کے حوالے سے پہلے ہی پی ڈی ایم کے اندر اختلافات موجود تھے خاص کر استعفوں کے معاملے پر اتفاق نہیں تھا ۔پی ڈی ایم کا پورا زور جلسے جلوس تک ہی محدود رہا ہے پہلے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی بات کی گئی۔
مگر بعد میں ضمنی انتخابات میں سب نے حصہ لیا،اسی طرح سینیٹ انتخابات میں بھی بھرپور طریقے سے تمام پی ڈی ایم جماعتوں کی شراکت داری رہی مگر پی ڈی ایم کے اندر اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب یوسف رضاگیلانی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنے اور اس میں حکومت اوراپوزیشن دونوں کی جانب سے انہیں ووٹ دیئے گئے خاص کر بلوچستان عوامی پارٹی کو نشانہ پر رکھاگیا ہے کہ ان سے ووٹ کیونکر لئے گئے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں سینیٹ انتخابات میں کس طرح سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی اس پر اب پیپلزپارٹی اور اے این پی بات کررہے ہیں ۔
جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپوزیشن اتحاداندرون خانہ مضبوط نہیں تھی اور نہ ہی پی ڈی ایم اجلاس اور اس کے فیصلے پارٹیوں کیلئے اہمیت رکھتے تھے بلکہ سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں اور مفادات کو زیادہ اہمیت دے کر چل رہی تھیں۔ مگر ن لیگ کے مرکزی رہنماء شاہد خاقان عباسی اب بھی کوشش میںلگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے اتحاد کو برقرار رکھاجائے، گزشتہ روز انہوں نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہاکہ پیپلزپارٹی اور اے این پی صرف وضاحت دیتیں نہ کہ سخت فیصلے کی طرف جاتیں۔بہرحال اب بات آگے بڑھ چکی ہے۔
دو بڑی جماعتوں کا اپوزیشن سے نکلنے کے بعد یقینا اتحاد پر اثرپڑے گا۔ جہاں تک لانگ مارچ کی بات ہے تو ن لیگ پنجاب میں ایک بڑی جماعت ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے پاس ورکرز کی ایک بڑی تعداد ہے تو لانگ مارچ بھی ہوگا مگراس سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیںپڑے گا اور جو اہداف پی ڈی ایم حاصل کرنا چاہتی تھی اب وہ حاصل نہیں کرپائے گی۔