|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2021

آج ہم ایک ایسے عہد میں مزدوروں کا عالمی دن منا رہے ہیں جہاں کورونا کی عالمی وباء نے دنیا کی تمام ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ لاکھوں انسان اس موذی وباء کا شکار ہو رہے ہیں اور دنیا کی تمام معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے کروڑوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں اور وسیع تر لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد بھی بے روزگار ہی ہیں۔ ایک طرف وباء کی وجہ سے معیشتیں زوال پذیر ہوئیں ،دوسری طرف سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں اس دوران بے تحاشا اضافہ ہوا۔ کورونا وبا نے پوری انسانیت کے سامنے سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور وحشت کو آشکار کردیا ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر بڑی معیشتوں جن کے پاس انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ہتھیار موجود ہیںلیکن ان کے پاس ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر اور آکسیجن کا فقدان ہے۔ ویکسین ابھی تک وسیع تر آبادی بالخصوص تیسری دنیا کے عوام کی پہنچ سے دور ہے اور آئے دن ہزاروں لوگ اس وبا سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ نجی شعبہ ویکسینیشن کی آڑ میں لوٹ مار میں مصروف ہے۔
پاکستان میں تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے اصلاحاتی پروگرام کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ لیکن مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد اپنے تمام تر دعوئوں کے برعکس آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کے تمام تر وعدے ہوا میں اڑ گئے۔ حکمران اشرافیہ، وزراء اور مشیر سب بدعنوانی اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ آئے دن چینی اور آٹا مافیہ کے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں۔آئی ایم ایف کے مزدور دشمن شرائط کو لاگو کرتے ہوئے تمام تر بچے کچے قومی اداروں کی نجکاری کو دسمبر تک مکمل کرنے کے لیے اقدامات کو تیز کیا جارہا ہے۔ بعض اداروں کو مکمل طور پر ختم کیا جا رہاہے۔ ملازمین کے پینشن کو بھی ختم کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ڈائون سائزنگ کے نام پر بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جارہا ہے۔ ہر سطح پر کنٹریکٹ ملازمت کو متعارف کرادیا گیا ہے۔ دوسری جانب مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں۔ عدالتوں سے ملازمین کو ریلیف حاصل کرنے کے راستے بھی بند کیے جارہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں مزدوروں کو کسی طرح کی سوشل سیکیورٹی حاصل نہیں ہے۔ فیکٹریوں میں مزدوروں سے 12گھنٹے سے زائد کام لیا جاتا ہے جبکہ ان کی اجرتیں متعین کردہ کم سے کم اجرت سے بھی قلیل ہیں۔ سالانہ بجٹ میں عوام اور ملازمین کے لیے کوئی مالی پیکج نہیں دی جاتی جبکہ سرمایہ داروں اور استحصالی قوتوں کو خوب نوازا جاتا ہے۔ کورونا وبا کی حالیہ لہر زیادہ مہلک ثابت ہورہی ہے اور حکمران مفت ویکسینیشن کی بجائے لاک ڈائون پر تکیہ کر رہے ہیں جس سے بے روزگاری اور معاشی بربادی کا ایک اور دور آئے گا۔
دوسری طرف محنت کشوں میں حکمرانوں کی ظالمانہ مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے۔ اکتوبر 2020ء اسلام آباد میں ہونے والا ملازمین کا احتجاجی دھرنا اور 10فروری 2021ء کا دھرنا اسی غم و غصے کا واضح اظہار تھا جس میں ملازمین حکومتی پالیسیوں ،نجکاری، ڈائون سائزنگ، ٹھیکیداری نظام وغیرہ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ تمام تر لاٹھی چارج، شیلنگ اور گرفتاریوں کے باوجود حکومت کو ملازمین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 25فیصد عبوری الائونس کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان میں گرینڈ الائنس نے 29مارچ کو 19نکاتی ایجنڈے پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کے لیے ہاکی چوک پر 12دنوں تک دھرنا دیا۔ عدالتی مداخلت کی وجہ سے دھرنا مؤخر کیا گیا لیکن اس کے باوجود ملازمین کا یہ دھرنا انتہائی جراتمندانہ اقدام تھا۔ گرینڈ الائنس کی قیادت اور ملازمین اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم دوبارہ احتجاج اور تحریک کی طرف جائیں گے اور اپنے مطالبات سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک صورت حال اختیار کرسکتی ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر تیز ی سے گل سڑ رہا ہے جس کے مضمرات پوری انسانی سماج کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان تمام وحشتوں اور بربادیوں کو ختم کرنے کی تمام تر ذمہ داری محنت کش طبقے کی تحریک پر آن پڑتی ہے کیونکہ تمام تر طاقت محنت کشوں کے ہاتھوں میں ہے۔ انہیں صرف اپنی اس طاقت کا احساس کرنے کی ضرورت ہے اور بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور قوم کے طبقاتی بنیادوں پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ نجکاری، مہنگائی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط کے خلاف ایک مشترکہ لڑائی لڑنی پڑے گی اور اس لڑائی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس فرسودہ سرمایہ دارانہ منڈی کے نظام کو اکھاڑ پھینک کر طبقات سے پاک معاشرے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ یہی محنت کش طبقے کی نجات اور شکاگو کے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا واحد راستہ ہے۔