|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2021

مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم بیانیہ میں تضادات بڑھتے جارہے ہیں، شہباز شریف کی رہائی جب سے ہوئی ہے وہ اب پارٹی کی باقاعدہ قیادت کررہے ہیں جبکہ نوازشریف اور مریم نوا ز نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے گوکہ گزشتہ روز مریم نواز نے پیشی کے دوران شہباز شریف کی جانب سے پی ڈی ایم رہنماؤں کو دئیے گئے عشائیہ سے متعلق کہاکہ یہ پی ڈی ایم کا عشائیہ نہیں تھا بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو بحیثیت اپوزیشن لیڈرشہباز شریف نے مدعو کیا تھا۔

مسئلہ عشائیہ کا نہیں ہے بلکہ پیپلزپارٹی کی دوبارہ پی ڈی ایم میں شمولیت کی بات کی جارہی ہے شہباز شریف سمیت بعض ن لیگی رہنماؤں کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم اتحاد میں واپسی کیلئے بات چیت کی جائے مگر شاہدخاقان عباسی سینیٹ انتخابات کے بعد ایک ہی مؤقف پیپلزپارٹی کے متعلق رکھتے آرہے ہیں کہ جب تک پیپلزپارٹی وضاحت نہیں دے گی پی ڈی ایم میں ان کی شمولیت کو قبول نہیں کیاجائے گا۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنماء اپناموقف دیتے آرہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کسی ایک جماعت کی پابند نہیں ہے اور کسی جماعت کے کہنے پر وہ کسی طرح کی وضاحت اور معذرت نہیں کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے سینیٹ انتخاب کے دوران کس طرح پنجاب میں اتحاد کرکے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا،ان سے کیونکر وضاحت نہیں لی جارہی۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر پیپلزپارٹی کی دوبارہ آمدپر ن لیگ کے اندر اختلافات پائے جاتے ہیں جبکہ دوسرا مسئلہ بیانیہ کا ہے کیونکہ شہباز شریف اور نواز شریف کے سیاسی بیانیہ میں واضح فرق نظر آرہا ہے شہباز شریف پارلیمان کے اندر بطور اپوزیشن لیڈرپی ڈی ایم کو چلانا چاہتا ہے اور حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے پارلیمان کے اندر تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔وہیں شاہدخاقان عباسی اس حوالے سے اختلاف رکھتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز کیا ہے۔شاہدخاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے اندر تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے ممکن نہیں ہے اب شاہدخاقان اس جملے سے کس کومتوجہ کرنا چاہتے ہیں شہباز شریف یا پیپلزپارٹی کو کیونکہ دونوں ہی پارلیمان کے اندر اِن ہاؤس تبدیلی کی خواہش کااظہار کررہے ہیں جبکہ سڑکوں پر نکلنے اور دیگر پُرتشدد سیاست کو عوامی نقصان سے تشبیہ دے رہے ہیں حالانکہ اس سے قبل پی ڈی ایم نے جلسے،جلوس اورمظاہرے کئے۔

یہ دو واضح فرق ن لیگ کے بیانیہ میں نظر آر ہے ہیں جبکہ چوہدری نثار کی سیاست میں انٹری تیسری وجہ ہے اور یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار مکمل طور پر رابطہ میں ہیں،دیرینہ دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اب آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر بھی پلان مرتب کررہے ہیں خاص کر پنجاب میں بڑی سیاسی تبدیلی کے حوالے سے چہ مگوئیاں بھی کی جارہی ہیں گوکہ اس کی تصدیق چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی جانب سے نہیں کی گئی ہے مگر اس کی تردید بھی نہیں آئی ہے۔مریم نواز سے جب چوہدری نثار علی خان کے متعلق میڈیا نمائندگان نے سوال کیاتو مریم نواز نے کسی طرح کی رائے دینا مناسب نہیں سمجھا جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مریم نواز کے علم میں بھی بہت کچھ ہے مگر وہ وقت کا انتظار کررہے ہیں

کیونکہ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مریم نواز اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان شدید ترین اختلافات موجود ہیں۔بہرحال اب سب کی نظریں میاں محمد نواز شریف پر لگی ہوئی ہیں اور خاص کر مریم نواز بھی اپنے والد کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ وہ کیا مؤقف اپنائینگے کیونکہ اب تک مریم نواز صرف اپنے والد نواز شریف کے ہی بیانیہ کو لیکر چل ر ہے ہیں اور اپنے چچا اور چچازاد بھائی کا احترام رسمی طورپر کرتے ہیں مگر سیاسی حوالے سے وہ نواز شریف کے ساتھ ہی چلیں گے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کی دوبارہ پی ڈی ایم میں غیر مشروط آمد ہوجاتی ہے تو لیگی رہنماؤں کاجھکاؤشہبازشریف یا پھرمریم نواز کی طرف ہوگا اور ساتھ ہی چوہدری نثار علی خان کی آئندہ سیاسی سرگرمیاں بھی ن لیگ کیلئے کڑی امتحان ثابت ہوں گی مگر نوازشریف کی خاموشی بعض افواہوں کو ہوا دے رہی ہے اور سیاسی بصیرت رکھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ نواز شریف جو فیصلہ کرینگے ن لیگی اکثریت ان کے ساتھ جائیگی،پھر بیانیہ ایک یا چار ہو، سیاست میں کوئی چیز حرف آخرنہیں والی مثال اس صورتحال پر مکمل فٹ آتی ہے۔