6جون کو بحریہ ٹاؤن میںرونما ہونے والے افسوسناک واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے پُرتشدد واقعات کی کسی طرح بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کوئی بھی قانون کوہاتھ میں لیتے ہوئے لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچائے ،اپنے حقوق کیلئے پُرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی وقانونی حق ہے ۔ گزشتہ 8سالوں سے بحریہ ٹاؤن کی قبضہ گیریت کیخلاف متاثرین سراپااحتجاج ہیں اور ان کے ساتھ سندھی اور بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور وکلاء بھی شامل ہیں جنہوں نے ہر فورم پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کاٹھور سے لیکر نوری آبادتک زمینوں پر قبضہ کی سازش کیخلاف نہ صرف احتجاج کیا بلکہ تمام تر قانونی راستے بھی اپنائے۔
اسی طرح 6جون کو ان تمام جماعتوں کی جانب سے ایک پُرامن احتجاج کی کال دی گئی تھی اور انتہائی منظم اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے کہ اچانک بحریہ ٹاؤن کے اندر سے املاک کو جلانا شروع کیا گیا اور پورا ماحول تشدد سے بھرگیا۔ اب یہ واقعہ کس طرح سے رونما یہ بڑا دلچسپ پہلو ہے جس پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں، بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ پر کنٹینرز کھڑے کئے گئے تھے، پولیس کی بھاری نفری تین ایس ایس پیز کی سرپرستی میں سیکیورٹی کیلئے مامور تھی جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اپنی سیکیورٹی بھی وہاں موجود تھی تو کس طرح سے باہر احتجاج کرنے والے اندر داخل ہوئے؟ سیکیورٹی پر مامور اہلکار کیوں اچانک غائب ہوجاتے ہیں؟بحریہ ٹاؤن کی اپنی سیکیورٹی چومنتر ہوجاتی ہے ؟اس سے بڑھ کر جس طرح سے آگ لگی کہا جارہا ہے کہ مبینہ طور پر آگ لگانے میں وہی کیمیکل استعمال ہوا جو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری اور یوم عاشور کے دوران کراچی میں ہونے والے حملے میں ہوا تھا ۔فی الحال اس لئے اسے مبینہ قرار دیا جارہا ہے۔
کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئی تحقیقات نہیں کیں جو کہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اتنا بڑاواقعہ رونما ہونے کے باوجود کافی دیر کے بعد جائے وقوعہ پر دوبارہ نمودار ہونا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے اور یہ بات خود بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کہہ رہے ہیں جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اب بھی دستیاب ہیں کہ پولیس آگ لگنے کے فوری بعد جائے وقوعہ سے غائب ہوجاتی ہے اور املاک کو نقصان پہنچانے اور جلانے والوں کو روکنے کیلئے کسی طرح کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ یہ باتیں بھی باز گشت کررہی ہیں کہ اس تمام عمل کے پیچھے خود بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض مبینہ طور پر ملوث ہیں دونوں اطراف سے الزامات تو لگائے جارہے ہیں مگر ان شبہات کو دور کرنے کی ذمہ داری سیکیورٹی اداروں کی ہے۔ دوسری جانب ایم کیوایم کی جانب سے فوری طور پر اس تمام واقعہ کو لسانیت کا رنگ دینا انتہائی شرمناک عمل ہے ایم کیوایم کے لیڈرا ن جو اب واشنگ مشین سے صاف ہوکر پھر سیاست کررہے ہیں ان کے ماضی سے سبھی واقف ہیں ۔
لسانیت کا کارڈ کھیلنے کے پیچھے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں سندھ حکومت جو ہر وقت سندھ کارڈ کھیلتی رہتی ہے اب ملک ریاض کی قربت میں مظلوم مظاہرین کیخلاف کارروائی کرتے دکھائی دے رہی ہے، 125سے زائد افراد کو گرفتار کیاجاچکا ہے جبکہ قادرمگسی، سنسان قریشی، جلال محمود شاہ اور گل حسن کلمتی سمیت متعدد افراد کیخلاف ایف آئی درج کی جاچکی ہے کسی تحقیقات کے بغیر کس طرح سے پُرامن مظاہرین کو مورد الزام ٹہرایا جارہا ہے اور ان افراد کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے جن کی زمینوںپر بحریہ ٹاؤن کی نظریں لگی ہوئی ہیں ،اگر اس کھیل کو ختم نہ کیا گیا تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہونگے اس لئے سندھ حکومت خاص کر پیپلزپارٹی کے قائدین ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے شفاف تحقیقات کرائے وگرنہ یہ سمجھاجائے گا کہ اس کھیل میں سب اپنا حصہ ڈال کر اپنے مالی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جوکھیو، برفت،کلمتی، گبول اور پالاری قبائل جو صدیوں سے اپنی زمینوں پر آباد ہیں ان کو بے دخل کرکے ان کی زمینوں کو ہڑپنا چاہتے ہیں مگر نتائج اس کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی کمیشن بناکر اصل ملزمان تک پہنچاجائے وگرنہ سندھ کی پُرامن سرزمین کو قبضہ مافیا خون میں نہلانا چاہتی ہے جوکسی کے مفاد میں نہیں ۔