پانی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس نعمت کی اہمیت اور اندازہ بلوچستان کے باسیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا جہاں پر آبادی ،زراعت اور لائیواسٹاک کا دارمدار صرف بارش کے پانی پر منحصر ہے۔ ماحولیاتی تغیرات ،طویل خشک سالی اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے بلوچستان پانی کی قلت اور عدم دستیابی سے گھرا ہوا ہے سنگلاخ پہاڑ، تاحد نظر صحرا اور بے آب گیاہ میدان سے گھرا یہ خطہ اپنے منفرد موسمی حالات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔
صوبے میں نہری نظام محدود اور زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے صدیوں سے پینے اور کاشتکاری کے لئے رواں کاریزات خشک ہوچکی ہیں۔ماضی قریب میں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 300سے زائد کاریزات موجود تھیں جوکہ خشک سالی، بارشوں کی کمی اور زیر زمین پانی کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں۔دوسری جانب نہری پانی کے لئے دیگر صوبوں پر انحصار کرنے سے ہماری زراعت بری طرح متاثر ہے ضرورت کے وقت نہروں میں پانی کی عدم فراہمی سے کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔اس صورتحال میں بارشوں کا پانی پینے اور زرعی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔صوبے میں سالانہ اوسطاََ50 سے 500 ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں ۔
جس سے 13ملین ایکٹر فٹ سے زائد پانی مل جاتاہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس 13ملین ایکٹر فٹ پانی سے صرف 4ملین ایکٹر فٹ پانی محفوظ کرکے استعمال کیاجارہا ہے۔ جبکہ بقیہ پانی سیلاب کی صورت میں سمندر برد یا ضائع ہوجاتا ہے ۔صوبے میں سالانہ لاکھوں ایکٹر برساتی پانی کے ضائع کو روکنے ،زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ ،زراعت اور لائیواسٹاک کے لئے استعمال میں لانے سے پانی سے متعلق مسائل اور مشکلات میں قدرے َکمی واقع ہوسکتی ہے صوبے میں ؎پانی کے ذخیرہ کرنے کے بندوبست محدود ہونے سے سالانہ 9ملین ایکٹر فٹ قابل استعمال پانی ضائع ہورہاہے۔
جبکہ دنیا بھر میں یہ واسط شرح صرف 8.5ملین ایکٹر فٹ ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بلوچستان میں قیمتی اور نایاب برساتی پانی کاکس قدر ضائع ہورہا ہے۔اگراس پانی میں سے آدھا حصہ بھی محفوظ کرلئے جائیں تو صوبے میں خشک سالی کے خاتمے، زراعت کے فروغ ،پینے کے پانی کی دسیتابی اورزیر زمین پانی کی سطح میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور بارشوں کی کمی جیسے عوامل 2025ء تک صوبے کو پانی کے شدید مسائل سے دوچار کرسکتے ہیں لہذا موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے میں پانی کی دسیتابی ،ذخیرہ اور زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ کے لئے متعدد چھوٹے بڑے ڈیموں کی بروقت تعمیر،زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کے لئے ری چارچنگ پوائنٹس، مقامی آبادی اورمویشوں کے لئے پانی کی ضرورت کو پورا کرنے ،ماہی گیری ، کھیتی باڑی کے فروغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔صوبے میں بیشتر آبادی کا انحصار زراعت اورلائیواسٹاک کے شعبے سے منسلک ہے۔
لہذاحکومت انہی شعبوں کے فروغ کے لئے پانی سے متعلق مسائل کے حل پر سنجیدگی سے حکمت عملی کے تحت عمل پیرا ہے۔اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے تعاون سے صوبے میں 100ڈیمز کے منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔اب تک 22سے زائد ڈیموں کی تعمیر مکمل جبکہ26کے قریب ڈیمز پر تعمیراتی کام آخری مراحل میں ہیں۔موجودہ صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی کاوشوں سے موجود ہ وفاقی بجٹ میں بھی اس منصوبے کے پیکج فور کے لئے فنڈز رکھے گئے ہیں ۔ان ڈیموں کی تعمیر سے 2ہزار چار سو ملین ایکٹر فٹ برساتی پانی کو محفوظ بنایا جاسکے گا اور اس سے 2ہزار ایک سو سے زائد ایکٹر رقبے کو زیر کاشت لاجاسکے گا۔
اس کے علاوہ موجودہ وفاقی بجٹ میں بلوچستان میں زیر زمین پانی کی پائیدار مینجمنٹ کے لئے کاریزات کے تحفظ اور بحالی کے لئے 42ملین روپے رکھے ہیں جبکہ ہنگول ڈیم کی انجینئرنگ ڈائزین ،ٹینڈر دستاویزات اور پی سی ون کے لئے 421.372ملین مختص کئے گئے ہیں۔ خضدار ،نوشکی ،چاغی ،کوئٹہ ،مستونگ اور لسبیلہ میں ڈیلے ایکشن ڈیمز کی تعمیر،بلوچستان میں سولر واٹرپمپنگ ، سکلجی ڈیم بولان کی فربیلٹی سٹیڈی اور کچھی کینال کے بقیہ کام کے لئے فنڈز کا اجراء بھی ان منصوبوں میں شامل ہے۔موجودہ صوبائی حکومت نے رواں پبلک سیکٹر ڈوپلمنٹ پروگرام میں پانی کے منصوبوں کو فوقیت دیتے ہوئے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں 510منصوبے شامل کئے ہیں۔
جبکہ 218جاری منصوبو ں کے لئے 2072.330ملین روپے مختص کئے ہیں اور محکمہ آبپاشی نے رواں پی ایس ڈی پی میں 7.958ملین روپے کی لاگت سے 143نئے اور 3705.78ملین روپے کی لاگت سے کمانڈ ایریا ڈوپلیمنٹ کے لئے 5منصوبے شامل کئے ہیں۔ جبکہ 21393ملین کی لاگت سے 100جاری منصوبوں ، 4539ملین روپے بیرونی امداد سے 2منصوبوں اوروفاقی حکومت کے 4منصوبوں جن پر 3735ملین سے زائد کی لاگت آئے گی پر کام تیز ی سے جاری ہے۔ان منصوبوں میں سے 117منصوبوں کی لوکیشن کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔
موجودہ بجٹ میں صوبائی حکومت نے سراکلہ ڈیم کوئٹہ،ژوب میں 5چھوٹے ڈیمز،تنگ ڈیم آواران، کروگ اسٹوریج ڈیم خاران ،شینزانی اسٹوریج ڈیم گوادر اور بولان ڈیم کچھی کے لئے 5723ملین روپے رکھے ہیں۔جبکہ 26چیک ڈیمز،اسٹوریج ڈیمز،ڈیلے ایکشن ڈیمز اور دیگر کی تعمیر ومرمت کے لئے 2863ملین روپے کی لاگت سے بوگراڈیلے ایکشن ڈیم قلعہ عبداللہ، رباط ڈیم دکی، کسرا ڈیم اندرپورماشکیل، کوٹ خان محمد تورتنگی ڈیم موسی خیل، خالق آباد ڈیلے ایکشن ڈیم،گمبولہ ڈیلے ایکشن ڈیم گدر سوراب،آسکر ڈیلے ایکشن ڈیم سنجاوی زیارت،خرم ڈیلے ایکشن ڈیم زیارت،نیگورڈیلے ایکشن ڈیم جھل مگسی،گرییوٹی ڈیم دکی،پئی ڈیم زیارت،سورکیچ ڈیم ژوب،تعمیرو مرمت اور بہتری ناڑی ندی کچھی،تیرکی ڈیلے ایکشن ڈیم سوراب، تعمیرو مرمت اور بہتری سیلابی آبپاشی اسکیمات ہنہ کوئٹہ ،تعمیرومرمت اوربہتری سیلابی آبپاشی اسکیم فت گدری اوتھل لسبیلہ، دابی واچ ڈیم لاکھڑا لسبیلہ، بندہاور ڈیم ڈورا کنراج لسبیلہ،ٹبکوہ ڈیم شملی کنراج لسبیلہ، گوارم جی ڈیم دوردکنراج لسبیلہ، کوشک ڈیم جھل مگسی ،سیندک ڈیم چاغی، گریوٹی ڈیم مری آباد کوئٹہ، بھیاء ڈیلے ایکشن ڈیم زیارت ،خاور اغبرگ ڈیم سنجاوی زیارت اورورچوم ڈیم زیارت پر کام مختلف مراحل میں جاری ہے۔
محکمہ آبپاشی زیر زمین پانی کی مانیٹرنگ کے لئے 18بیسن پر آبزوریشن ویل، واٹر ریسوریس انفارمیشن منجمنٹ سینٹر اور 14بیسن پر خود کار کمپیوٹرائزڈ نظام اور اسٹریم فلو چینجگ اسٹیشنر کے قیام کے لئے بھی اقدامات کررہا ہے جس سے مستقبل میں پانی کا تخمینہ لگانے کے لئے بڑے بیسن کی سٹیڈی کرنے سے پانی کے استعمال کی جامع منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔کوئٹہ شہر میں پانی کی کمی کے مسلئے کو حل کرنے کے لئے حکومت قلیل المدتی، وسط المدتی اور طویل المدتی نوعیت کے اقدامات پر عمل کررہی ہے۔ کوئٹہ شہر میں روزانہ 50ملین گیلن پانی کی طلب ہے تاہم واسا صرف 30ملین گیلن فراہم کرنے کے قابل ہے جس سے روزانہ 20ملین گیلن پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے شہر کے مضافات میں مختلف ڈیمز کی تعمیرجس میں مانگی ڈیم اور سرہ خلہ ڈیم شامل ہیں منگی ڈیم کی تعمیر سے کوئٹہ کو روزانہ 80ملین گیلن پانی فراہم کیاجاسکے گا۔
جس سے مختصر وقت کے لئے پانی کے بحران کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ واٹر ٹرٹیمنٹ پلانٹ کی تنصیب اور پانی کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ،مختلف بڑے ڈیمز سے کوئٹہ شہر کو پانی کی ترسیل کے حوالے سے فزیبلٹی اسٹیڈیز جاری ہیں ۔اس طرح واٹر ریسورسز ڈوپلمنٹ جس سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیموںکے منصوبوں کی معاونت کے لئے فزیبلٹی اسٹڈی کا بھی عمل جاری ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے وندر اسٹوریج ڈیم منصوبے کی منظوری کے ساتھ ساتھ خاران میں گروک ڈیم ،بولان ڈیم کچھی ،نولنگ ڈیم جھل مگسی کے میگا منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔اس طرح واٹر ریسوریس انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کے تحت بلوچستان میں آٹو میٹک کلائمٹ انیڈ ویدر اسٹیشنز بنائے جائیں گے۔
موجودہ صوبائی بجٹ کے ترقیاتی پروگرام میں صوبے بھر میں 49نئے ڈیمز کی تعمیر کے لئے 6.451 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ آواران ڈیم کی تعمیر اور کمانڈ ایریا ڈوپلمنٹ کے لئے 1.790بلین ،میرانی ڈیم اور سبکزئی دیم کے کمانڈ ایریا ڈویلیمنٹ فیزٹو کے لئے 860.868ملین ،ان ڈیموں کے کمانڈایریا کے لئے فیز تھری میں 572.682ملین روپے جبکہ کچھی کینال کمانڈ ڈویلمپنٹ ایریا کے لئے 400ملین روپے رکھے گئے ہیں جس کی بدولت ڈیرہ بگٹیء اور ملحقہ علاقوں میں 29000ایکٹربنجر زمین کو زیر کاشت لا یا جاسکے گا۔ صوبے کے بڑے کالجز، سرکاری دفاتر اورڈی ایچ کیو ہستال میں پانی کی فراہمی اور فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب ، 250فراہمی آب کے منصوبوں کی شمسی توانائی پر منتقلی ،ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں پانی کے معیار کو جانچنے کی لیبارٹرز کے قیام اور کچھی کینال کے دیکھ بھال اور بحالی کے لئے20ارب کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔ان منصوبوں کی بروقت تکمیل سے جہاں زیر زمین پانی کی سطح میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے علاوہ زرعی ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے جس سے خوارک سے متعلق ضروریات کو پورا کرکے صوبے کی معاشی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتاہے ۔
اس کے علاوہ قابل کاشت رقبے میں بھی اضافہ کرکے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں ۔ایک زمہ دارقوم ہمیں پانی کے استعمال میں احتمال اور ضائع کو روکنے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ پانی انسانی زندگی کا اہم جزو ہے آبپاشی جیسے اہم شعبے میں ہمیں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ایک طرف محدود پانی کے وسائل ضائع ہورہے ہیں تو دوسری جانب زیرزمین پانی کی سطح بھی مسلسل گررہی ہے۔ان تمام صورتحال سے صوبائی حکومت بخوبی واقف ہے جس سے نمٹنے کے لئے جدید آبپاشی کے نظام اور ڈیمز کی تعمیر کے لئے جامع حکمت عملی اپنائی جارہی ہے اور بلوچستان میں پانی کی قلت کو جنگی بنیادوں پر حل کیاجارہا ہے۔