افغان طالبان نے ملک کے سیاسی امور چلانے کیلئے 12 رکنی کونسل قائم کردی ہے۔کونسل میں ملاعبدالغنی برادر، ملامحمد یعقوب، خلیل الرحمان حقانی، حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، اور گلبدین حکمت یارشامل ہیں۔ ترجمان طالبان نے کہاہے کہ پولیٹکل سسٹم پر مشاورت جاری ہے، خواہش ہے کہ سب کو قابل قبول اسلامی نظام اور مخلوط حکومت بنائی جائے۔دوسری جانب طالبان نے اپنی کابینہ کی تشکیل کے لیے بھی مشاورت تیز کردی ہے۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو وزارت اطلاعات اور وزیر ثقافت کا قلمدان سونپے جانے کا امکان ہے۔
محمد نبی المروی کو افغانستان کے صوبے خوست کا گورنرتعینات کرنے کا امکان ہے۔فوجی کمیشن کے سابق سربراہ عبدالقیوم ذاکر کو افغانستان کا وزیر دفاع بنایا جاسکتا ہے۔طالبان کی جانب سے کوئی حتمی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ وسیع ترمشاورت سے کیا جائے گا۔ سہیل شاہین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ حکومت تمام افغان نمائندوں پر مشتمل ہوگی۔ حکومتی شکل واضح ہے کہ اس میں تمام افغان پارٹیاں شامل ہوں گی۔طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ہم ایک آئین بنائیں گے کیونکہ جو پہلے آئین تھا وہ قبضے کے دور میں بنایا گیا تھا۔ آزاد افغانستان میں ایسا آئین بننا ضروری ہے جو افغان عوام کے مفاد میں ہو۔ اس آئین میں مرد و خواتین سب کے حقوق درج ہوں گے۔
افغانستان میں طالبان نے کنٹرول تو سنبھال لیا ہے اب اس کے بعد حکومتی تشکیل نوکابڑا مرحلہ باقی ہے۔ بہرحال یہ انتہائی خوش آئندبات ہے کہ طالبان نے دیگر افغان نمائندگان کو بھی ملکی سیاسی امور چلانے کے حوالے سے قائم کردہ کونسل میں شامل کرلیا ہے جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ماضی کے طالبان حکومت اور آئندہ بننے والی حکومت میں فرق ہوگا اور یہ خود طالبان کے وسیع ترمفاد میں ہے کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک پہلے سے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیںجنہیں دور کرنا ضروری ہے اس سے افغانستان میں امن کے ساتھ ترقی کے نئے راستے کھلیں گے اور دنیا کے بڑے ممالک افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے ساتھ تجارتی معاملات کو بحال کرینگے کیونکہ فی الحال امریکہ نے بھی اپنے اکاؤنٹ منجمدکردیئے ہیں۔
جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی فنڈز کو روک دیا گیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت پر بڑا دباؤ آئے گااور اس کے ساتھ ہی سفارتی تعلقات کی عدم بحالی سے افغانستان کو نئے چیلنجز اور بحرانات کا بھی سامنا کرناپڑے گا۔افغانستان کی نئی حکومت سے یہی توقع کی جارہی ہے کہ ماضی کی نسبت طالبان کے رویے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور وہ انسانی حقوق کے تمام تر عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے نظام میں بہتر سے بہتر اصلاحات لائیں گے۔ اس امید کے ساتھ کہ نئے انتخابات مکمل شفاف طریقے سے ہونگے اور افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے نمائندگان منتخب ہوکر ان کے مستقبل کے مفادات کا بہتر انداز میں دفاع کرینگے اور یہ ایک آزاد پارلیمانی نظام سے ہی ممکن ہے جس پر عالمی طاقتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ افغانستان میں امن واستحکام سے خطے سمیت دنیا پر اس کے انتہائی مثبت اثرات پڑینگے ۔