جب دیکھو کچھ نا کچھ آ ہی جاتی ہے، کبھی قرض سے تو کبھی مرض سے، ادھار، سودے بازی یا کچھ اور کہی اور سے آنا بھی کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ مگر آئے ہوئے پیسے کو کیسے اور کہا استعمال کرنا ہے یہ ہر نتھو خیروں کی بس کی بات نہیں، ناہی ایسے پیسے سے دولت، شہرت یا عزت ملتی ہے۔
کیا ہم نے کبھی پیسیکو صحیح طور پر استعمال کرنے کے بارے میں سوچا ہے یہ سوال اگر اعلیٰ حکام سے لیکر ہر فرد سے پوچھا جائے تو شاید ہی کوئی مثبت جواب ملیں مگر ناممکن! صرف پیسہ نہیں بلکہ ہر شے کی مناسب استعمال اعلیٰ ظرفی ہے اور رشک آتا ہے پاکستان کی اعلٰی ظرفی پہ جس نے اگر صحیح استعمال جانا تو وہ ہے اِس مرض (کووڈ 19) کی جس نے کل پرسوں تک اسے آئی ایف کی بھی نظرِ کرم سے بھی محروم نہیں رکھا۔
24 اگست پاکستان کو آئی ایف کی ملنے والی ریلیف فنڈ رقم 2 ارب 77 کروڑ ڈالر تھی جس پر ریحام خان و چند دیگر افراد نے ٹویٹر پر واویلا مچایا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینگے کہنے والوں کو اپنی وعدے وفا کرکے خودکشیاں کرنی چائیے مگر میرے کہنے اور دیکھنے سے پہلے ہی ٹویٹر پہ اس پر بحث مباحثے ہوچکے تھیں اور لوگ پتہ نہیں کہا کہا کی ہول فول بھک کر یہ ثابت کر چکے تھے کہ یہ کوئی قرض نہیں بلکہ آئی ایم ایف سے ملنے والا کورونا ریلیف ہے جو وہ اپنے ممبرز کو دے رہے ہیں۔ میرے ذہن میں ایک خیال یہ بھی آیا کہ پاکستان کے پاس جتنے پیسے قرض سے آتے تھے تو اب اتنے ہی یا اس سے کم و بیش اس مرض سے بھی آرہے ہیں جس نے شاید پولیو کی طرح اب یہاں صدیاں پنجے گاڑنے ہے۔ کبھی چین تو کبھی امریکہ اور کبھی آئی ایم ایف و برطانیہ سے ملنے والی رقم پر سوال کیوں نہیں کی جاتی؟ کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ قرض تو ویسے بھی دِکھنے کو نہیں ملتے چاہے وہ پرانے ہو یا جون میں ملنے والی 5176.42 بلین ہو مگر مرض سے ملنے والے رقم میں عوام کو نظر انداز نا کیا جائے تو شاید یہ ریلیف عوامی ماسک، ویکسین، جاہ وجلال اور دعاوں سے دوبارہ ملیں۔ کر بلا ہو تو بلا۔۔۔
غلط بھی کیا ہے؟ سرکاری ٹھیکیداروں میرا مطلب ہے حکمرانوں سے زیادہ تعداد تو عوام کی ہے جن کے منہ پر سب سے زیادہ ماسک چسپا رہتا تھا، ہاتھوں پر مسلنے والے ان سینیٹائزر کا تو ذکر ہی نہ کریں جنکے بارے یہ مشہور ہے کہ ہاتھ پہ سینٹائزر مسلنے سے نوجوانوں کی دو شادیوں والی لکیریں ہی مٹ چکی ہیں۔ اور اب سہمے ہوئے ویکسین لگوانے والی عوام کو ریلیف سے دور رکھنا کہا کی انصاف ہوگی جنہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی حکمرانوں یا اپنے تنخواہوں کی مان رکھا ہوا ہے۔
قرضوں کی صحیح استعمال پہ تو بات کرنے سے رہہ گئے کیونکہ قرض خود ہی صحیح اور مناسب چیز نہیں جس پر پرجوش تبصرے کئے جائے مگر مرض سے ملنے والی ریلیف پر اتنا کہنا بجا ہوگا کہ اس رقم کو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو یہ غیور عوام احسان کا طوق اپنے گلے ڈال کر اسکو بخوشی قبول کر لینگے اور امید ہے کہ شیطان کی طرح اس طوق کے ڈلنے پر اپنے شرائط بھی نہیں رکھیے گے۔ جیسا ہو مگر ہو توسہی، نا بھی ہو تو احسان جتانے آغاز تو کیا جائے جسکی امید سے لوگ کچھ سال اور جی لینگے جیسے اسی ریلیف اور خیرات سے ملنے والی رقم سے ہزاروں لوگ شاہراہ قاتل بلوچستان (جسے عام زبان میں آر سی ڈی روڈ کراچی تا چمن کہتے ہیں) پر خرچ کئے جانے کا امید لگائے پھرتے ہیں۔
اپنے پیسوں سے تو امید لگانے سے نسلوں کے بیت جانے کا ڈر ہے مگر مفت کی رقم سے بلوچستان کو اس بھیگی شاہراہ سے نجات دلائی جائے۔ اب یہ کہنا بجا ہوگا کہ صوبائی حکومت کی طرف لوگ مایوس ہوکر اب وفاق اور وفاقی حکومت سے امداد کی آس لئیے بیٹھے ہیں۔
امید ہے رقمِ مرض سے عوام پر کسی صوفی کی پانی چھڑکنے کی طرح کچھ نوازشات چھڑکے جائیں گے وگرنہ ہڑپ کرجانے کے بعد کوئی دوسری امید اور آسرا عوام کے دلوں پہ چھائی افسردگی اور اداسی کو دور نہیں کر پائیگا جسے دور کرنا ہر الیکشن لڑنے والی پارٹی کیلئے حد المکان ضروری ہے۔ اور یاد رہیں الیکشن دور نہیں۔