کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی پریس ریلیز کے مذمتی بیان میں کہا گیا کہ قلعہ سیف اللہ میں خسرہ مہم کے دوران 5 معصوم بچوں کی ہلاکت قابل افسوس امر ہے خسرہ ویکسنیشن کے دوران ایسا واقعہ رونما ہونا کسی بھی صورت قابل قبول عمل نہیں جس کے متعلق مکمل طورپر تحقیقات اعلیٰ سطح پر کی جائے تاکہ اصل حقائق عوام تک پہنچ سکیں کیونکہ ایسے حساس معاملات میں اگر مکمل باریک بینی سے تحقیقات نہ ہوں تو ایسے دلخراش واقعات رونما ہوسکتے ہیں خسرہ ویکسنیشن میں آیا ناقص ادویات زیاد المعیاد ادویات تو استعمال نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے 5 معصوم جانوں کا ضیاع اور انتہائی افسوسناک ہے بلوچستان اورمحکمہ صحت کے ارباب و اختیار صرف چند الفاظ پر مبنی اپنے جان خلاصی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مسئلہ انسانوں کی جانوں کیساتھ تعلق رکھتا ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک آلہ تحقیقاتی کمیٹی فوری طورپر تشکیل دی جائے جو معاملات کی تہہ تک پہنچ کر ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرسکیں دریں اثناء پارٹی کے بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان میں 40 لاکھ افغان مہاجرین سے متعلق بلوچستان صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور ایک واضح پالیسی نہ اپنانا جس طرح مرکزی حکومت اور دیگر صوبوں کی حکومتوں نے جوپالیسی اپنائی مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے لیکن بلوچستان حکومت انہیں افغانستان بھیجنے کے بجائے مکمل طورپر ان کی پشت پناہی کررہی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں اب بھی ان کی کوشش ہے کہ انہیں بلوچستان میں غیرقانونی طورپر ان کی آبادکاری کو یقینی بنائیں صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں موجودہ نام نہاد جعلی حکمران موجودہ نام نہاد جعلی حکمران خود غیرقانونی طریقے سے اسمبلی فلور پر مہاجرین کے بلاک شدہ شناختی کارڈ کو جاری کرنے کے تگ ودو میں مصروف عمل ہیں اور بلوچستان حکومت کی سرکاری مشینری کو بھی بے جا استعمال لانے کی کوششیں کررہے ہیں گزشتہ دنوں اسمبلی فلور پر 40 لاکھ افغان مہاجرین کی وکالت بھی باعث تشویش ہے کہ ملکی بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی کو بھی اختیارنہیں کہ وہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں آباد کرنے کی کوششیں کریں ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کے جو جعلی شناختی کارڈ جاری ہوئے تھے انہی بنیاد پر نیب حکام نے نادرا کے اہلکاروں کو گرفتار کرکے ان کیخلاف کیسز چلائے اور انہی کیسوں میں انہیں سزائیں بھی ہوئی اور خود تحقیقاتی اداروں کے سامنے شواہد بھی آئے کہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین کے خاندانوں کو شناختی کارڈ جاری ہوئے ہیں بلوچستان یتیم خانہ نہیں کہ یہاں پر اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو مزید برداشت کیا جائے انہی کی وجہ سے مذہبی انتہاء پسندی ‘ دہشت گردی ‘ فرقہ واریت ‘ مذہبی جنونیت ‘ کلاشنکوف کلچر اور منشیات بلوچستان کے معاشرے میں ہمیں دیا گیا افغان مہاجرین صرف بلوچوں کیلئے مسئلہ نہیں بلکہ پورے بلوچستانیوں کیلئے مسئلہ کا سبب بنتے جارہے ہیں افغان مہاجرین سے متعلق اگر بلوچستان حکومت اسی طرح مجرمانہ طورپر خاموش رکھتی ہے تو بلوچستان حکومت کے ارباب و اختیار کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔