واشنگٹن: امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے انخلا کی آخری تاریخ کے فیصلے پر ہونے والی تنقید کو مسترد کردیا جس کے باعث کابل میں 100 سے 200 امریکیوں سمیت معاونت فراہم کرنے والے افغان شہری رہ گئے ہیں۔وائٹ ہاؤس کے اسٹیٹ ڈائننگ روم سے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں جوبائیڈن نے طالبان کی تیز رفتار پیش رفت کے خلاف معزول افغان حکومت کی نااہلی پر تنقید کی جس کے باعث امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو جلد بازی اور ذلت آمیز راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار پر بھی تنقید کی۔
جوبائیڈن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طے شدہ معاہدے کے تحت ’گزشتہ برس 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کی اجازت دی گئی جن میں طالبان کے بعض جنگی کمانڈر بھی شامل تھے جنہوں نے ابھی کنٹرول سنبھالا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے صدارتی دفتر سنبھالا، طالبان 2001 کے بعد سے اپنی مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں تھے جو ملک کے تقریبا آدھے حصے کو کنٹرول کر رہے تھے۔
جوبائیڈن نے کہا کہ عہدیداروں کا خیال ہے کہ 100 سے 200 امریکی افغانستان میں ہیں جس میں چند ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کے پاس دہری شہریت ہے اور وہ طویل عرصے سے رہائش پذیر تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا ان کو نکالنے کے لیے پرعزم ہے۔
بہت سے قانون سازوں نے جوبائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 31 اگست کی مہلت بڑھا دیں تاکہ مزید امریکیوں اور افغانوں کے انخلا کو ممکن بنایا جاسکے لیکن امریکی صدر نے کہا کہ یہ ’صوابدیدی ڈیڈ لائن نہیں‘ بلکہ ایک ’جان بچانے کے لیے تیار کی گئی ڈیڈ لائن ہے‘۔
جوبائیڈن نے کہا کہ میں فیصلے کی ذمہ داری لیتا ہوں، اب کچھ کہتے ہیں کہ ہمیں بڑے پیمانے پر انخلا شروع کرنا چاہیے تھا اور کیا یہ زیادہ منظم طریقے سے نہیں کیا جا سکتا تھا، احترام کے ساتھ میں ان سے متفق نہیں ہوں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہاں تک کہ اگر انخلا جون یا جولائی میں شروع ہوچکا ہوتا، ’اب بھی ہوائی اڈے پر رش ہوتا‘ کیونکہ لوگ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔