|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2015

ہڑتال ہر مفادات کے گروپوں کا حق ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی حمایت میں احتجاج کریں ،جلوس نکالیں ‘ جلسے کریں مگرقانون کے دائرے میں رہ کر ۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی تو قانو ن کو حرکت میں آنا چائیے اور متعلقہ حکام نہ صرف ایسی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں بلکہ ان کے خلاف انتظامی اور قانونی کارروائی بھی کریں۔ وزیراعلیٰ نے ٹرانسپورٹرز سے ملاقات کے دوران واضح موقف اختیار کیا تھا کہ غیر قانونی خصوصاًایسے اقدمات جو عوام الناس کے مفادات کے خلاف ہوں گی ان کی حکومت بلا امتیاز کارروائی کرے گی۔ ٹرانسپورٹرز کا موقف ہے کہ ہزار گنجی کے بس اڈے پر اس وقت منتقل نہیں ہوں گے جب تک وہاں تمام ضروری سہولیات فراہم نہیں ہوں گی ۔ انہوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ وہ ہزار گنجی کے نئے بس اڈے پر منتقل نہیں ہوں گے بلکہ بس اڈے کی منتقلی کو سہولیات سے مشروط کیا ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر جانبدار لوگ اس بات کی تحقیقات کریں کہ ہزار گنجی میں وہ تمام ضروری سہولیات موجود ہیں خصوصاً سیکورٹی کے انتظامات کہ وہاں پر دن رات انسانی جانیں محفوظ رہیں گی اور ان کو جرائم پیشہ افراد کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت اس بات کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں کہ لوگوں کی جان ومال وہاں محفوظ رہے گی ۔ اس سے قبل تمام مشکوک، جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ضروری ہے ۔منظم جرائم پیشہ گروہوں کی موجودگی میں لوگوں کی زندگی اور ان کی املاک کو خطرے میں نہ ڈالا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔آئے دن انہی علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملے ہوتے رہتے ہیں آئے دن سرچ آپریشن کے نام پر سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے مگر پھر بھی واقعات ہورہے ہیں ۔اتفاقی یاا نفرادی واقعات کو فراموش کیا جاسکتا ہے مگر منظم جرائم اور منظم گروہوں کی موجودگی نا قابل قبول ہے ۔ان کا ہر قیمت پر خاتمہ پہلے ضروری ہے۔ بلوچستان بھرمیں سریاب روڈ پر سب سے زیادہ موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں ہوتی ہیں اسی طرح سے سرراہ لوگوں کو لوٹنے کی وارداتیں بھی یہیں ہوتی ہیں۔ ہمارے اخبار میں کام کرنے والے دس سے زیادہ ساتھی کارکنوں کی موٹر سائیکلیں چھینی گئیں وہ بھی اسلحہ کے زور پر ‘ پولیس اس میں ناکام رہی کہ انہوں نے کوئی بھی ملزم گزشتہ کئی سالوں میں گرفتا ر کیاہو ۔ یہ جاسوسی ضرور ہوتی ہے کہ میاں نے اپنی بیوی سے فون پر کیا کہا ۔ مگر منظم جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ ابتداء سے کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔اگر مسافروں کی جان محفوظ نہیں تو اڈے کو منتقل نہیں کرنا چائیے ویسے ہمارا یہ خیال ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں بس اڈے موجود ہوں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ لوگوں کو جلد سے جلد پیدل بس اڈے پہنچنے کی آسانی ہو ۔ البتہ ٹریفک پولیس کی نالائقی کو بنیاد بنا کر بس اڈہ ہزار گنجی منتقل نہ کریں ’ چونکہ ٹریفک پولیس ٹریفک جام کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا تو اس کی سہولت کے لئے اڈہ ہزار گنجی منتقل کیا جائے ، سزا مسافروں کو دی جائے کہ گھر سے نکل کر بیس میل کا مزید سفر کرکے بس اڈے پہنچیں اور اس کا کرایہ سینکڑوں روپے ہو ۔ ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ شٹل سروس اتنی مستعد نہیں ہو سکتی کہ لوگ آسانی سے شہر اور بس اڈے تک بغیر کسی مشکل کے پہنچ سکیں۔ شٹل سروس کا کرایہ مسافر کیوں ادا کرے ۔ حکومت انٹر سٹی کرایہ مقرر نہیں کر اسکی جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں نصف سے زیادہ کمی واقع ہوئی تھی ٹرانسپورٹرز یہ فائدہ عوام کو پہنچنے نہیں دیا ، حکومت بلوچستان تماشائی بنی رہی ۔ اگر جگہ کی کمی ہے تو حکومت نجی شعبہ سے زمین خرید کر چھوٹے چھوٹے کئی بس اڈے شہر کے وسط میں قائم کرے تاکہ حکومت کی جانب سے عوام الناس کو سہولیات میسر ہوں۔ تمام تر دلائل کے بعد بھی ہم ٹرانسپورٹرز کے ہڑتال اور پہیہ جام کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مقصد اور کچھ نہیں صرف عوام الناس کو مزید اذیتیں پہنچانا ہے ۔ٹرانسپورٹرز ہڑتال ضرور کریں اور اپنے مطالبات کی خاطر جائز طریقہ سے احتجاج کریں ،جلسہ کریں جلوس نکالیں مگر سڑکیں بند کرنا عوام دشمنی ہے، قانون کے خلاف ہے۔ جہاں تک ٹریفک کی روانی کے مسائل ہیں ان کو ٹریفک پولیس مستعدی کے ساتھ حل کرے۔ شہری انتظامیہ پہلے ٹرک اڈے کو یہاں سے نکال لے جس کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام رہتا ہے ۔دوسری وجہ غیر قانونی پارکنگ ہے سینکڑوں گاڑی سڑک کی دونوں جانب کھڑی ہیں جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے ۔