|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2021

جہاں طالبان افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مالی امداد کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں امریکی محکمہ خزانہ نے امریکی حکومت، این جی اوز اور بعض بین الاقوامی تنظیموں کو، جن میں اقوام متحدہ شامل ہے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ لین دین دین کی اجازت دے دی تاکہ انسانی سرگرمیوں کے لیے ضروری لین دین کیا جاسکے۔

 محکمہ نے ایک اور لائسنس بھی جاری کیا ہے جس میں خوراک، ادویات اور طبی آلات کی برآمد اور دوبارہ برآمد سے متعلقہ چند لین دین کی اجازت دی گئی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے نشاندہی کی کہ تمام ٹرانزیکشنز کے لیے لائسنس کی درخواستیں جو کہ جن کی اجازت نہیں دی گئی ہے یا مستثنیٰ نہیں ہیں ان پر ان کے کیس کی بنیاد پر غور کیا جائے گا اور انسانی امداد سے متعلق درخواستوں کو ترجیح دی جائے گی۔

امریکی ٹریژری آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول کی ڈائریکٹر آندریا گیکی نے ایک بیان میں کہا کہ ‘محکمہ خزانہ افغانستان کے لوگوں کے لیے انسانی امداد اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات کی سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لیے پرعزم ہے’۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکا مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر افغانستان میں زرعی سامان، ادویات اور دیگر وسائل کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا جبکہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک دونوں پر واشنگٹن کی عائد کردہ پابندیوں کو برقرار رکھے گا۔

واشنگٹن کی جانب سے طالبان کے ساتھ کچھ لین دین کی اجازت دینے کا یہ اقدام افغانستان کی جانب سے متعدد مطالبات کے بعد کیا گیا تاکہ ملک بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی مالی مدد کو وسطی ایشیائی ملک کو پہنچنے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے قابل بنائے۔

رپورٹس کے مطابق افغان تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث مشکلات کا شکار ہیں، سرکاری ملازمین کی اکثریت کو اب بھی کام پر واپس نہیں آنا ہے۔

افغان سینٹرل بینک نے حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے چند علاقوں میں امریکی ڈالر، ایرانی ریال اور پاکستانی روپے کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکیں اور اپنے معاہدوں اور معاشی لین دین میں قومی کرنسی استعمال کریں۔

مبینہ طور پر قوم کو طالبان کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے نقد رقم کی کمی کا سامنا ہے جو گروپ کو بیرون ملک موجود افغان مرکزی بینک کے ذخائر تک رسائی سے روکتا ہے۔

خاص طور پر اس سے افغان کرنسی کی قدر میں مزید کمی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کے خدشات جنم لیے ہیں۔