گزشتہ چند روز سے طلباء کوئٹہ میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کررہے ہیں ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ پی ایم سی آن لائن کی بجائے دوبارہ فزیکل ٹیسٹ لئے جائیں مگر اس مسئلے کو اس قدر طول دیاگیا کہ طلباء سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوگئے اور بالآخر طلباء کااحتجاج تشدد میں تبدیل ہوگیا۔ پولیس اور طلباء کے درمیان تصادم کی وجہ سے طلباء اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے ،پولیس نے 75طلباء کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا جس کے بعد احتجاج میںمزید شدت آگئی۔ اس سے قبل بھی اس بات کاذکر کیاجاچکا ہے کہ جو معاملہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے تو ہمارے حکمران کیوں اسے تشدد کی نہج تک لے جاتے ہیں ۔طلباء کسی شوق میں سڑکوں پر احتجاج نہیں کررہے۔
بلکہ اپنے روشن مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کیلئے مجبوراََ احتجاج کررہے ہیں وفاق سے لیکر صوبائی حکومت کے نمائندگان ہر وقت نوجوانوں کے بہتر اور روشن مستقبل کے لیکچر دیتے پھرتے ہیں مگر نوجوان نسل ہر طرف سے مسائل میں گِرا ہوا ہے یہ وہ طبقہ ہے جو آگے چل کر ملک کے لئے اپنا بہترین کردار ادا کرسکتا ہے مگر ہمارے یہاں نوجوانوں کیلئے کوئی پالیسی ہی موجود نہیں ہے محض بیانات اور دعوؤں کی حد تک نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنایاجاتا ہے ۔بہرحال اس احتجاج سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا ہے کہ جو نوجوان منفی سرگرمیوں سے کوسوں دور تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں مگر ان کے ساتھ تعلیمی معاملات میں ہاتھ کیاجاتا ہے۔
نہ جانے کس طرح کے نئے تیکنیک کے ذریعے نوجوان طالبعلموں کو الجھانے کیلئے نئی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں حالانکہ دنیا بھر میں تعلیم کے حصول کیلئے بھاری بھرکم رقوم خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کیلئے بہت سی آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں، زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اسٹوڈنٹس کی آسانی کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے تاکہ نوجوان طبقہ منفی سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے اپنے ملک کی ترقی کیلئے مستقبل میں کردار ادا کریں مگر یہاں تعلیم کے حصول کے لیے آسانی پیدا کرنے کی بجائے مزید مشکلات پیدا کی جاتی ہیں لہٰذا ہوش کے ناخن لیتے ہوئے نوجوان طلباء کے مسائل کو حل کیاجائے تاکہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے علمی سرگرمیاں بحال کرسکیں۔یہ اچھا منظر ہر گز نہیں ہے کہ مستقبل کے معمارتعلیمی اداروں کی بجائے سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔افسوس کہ گزشتہ روز پولیس نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنادینے والے طلباء کو گرفتارکرکے ان کے خلاف ایف آئی آردرج کی جنہیں جوڈیشل عدالت میں پیش کیاگیااور بعدازاںعدالت کے حکم پر گرفتار طلبا کو ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ بھیج دیا گیا۔
سیشن کورٹ نے گرفتار طلباء کی بیل ایپلیکشن منظورکرتے ہوئے انہیں رہاکرنے کا حکم دیا۔اب طلباء کے ساتھیوں نے ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے کہ جب تک ایف آئی آر واپس نہیں لی جائے گی احتجاج جاری رکھاجائے گا۔ دوسری جانب اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنرکوئٹہ خلیل مراد کا کہنا ہے کہ طلباء کے مطالبات مان لیے گئے تھے،میڈیکل انٹری ٹیسٹ اور میڈیکل سیٹ کی بحالی کا ڈرافٹ گورنر کو بھیجوا دیا گیا ہے جبکہ گرفتار طلباء کو ضمانت پر رہا کیا جاچکا ہے، ایف آئی آر پیر تک ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، طلباء کو تحریری طورپر لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ پیرکے روز تک ایف آئی آر ختم کردی جائے گی۔ خدا کرے کہ نوجوان طالبعلموں کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اس ذہنی اذیت سے چھٹکارا دیا جائے تاکہ سراپااحتجاج طالبعلم دوبارہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کرتے ہوئے سڑکوںکی بجائے تعلیمی اداروں میں جائیں۔ امید کرتے ہیںکہ صوبائی حکومت طالبعلموں کے لیے مستقبل میںمشکلات پیدا کرنے کی بجائے آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے قانون سازی کرے گی ناکہ انہیںمشکلات میں ڈال کر سڑکوں تک لائے گی ۔