کوئٹہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء اور بلوچستان کے امور کے کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے وفاقی حکومت عوام پر مہنگائی کے بم گرا رہی ہے عوام اب مہنگائی کے ایٹم بم کے انتظار میں ہیں۔
پیپلز پارٹی بلوچستان میں بر سراقتدار آئی تو ریکوڈک، سیندک، گوادر پورٹ سمیت دیگر وسائل سے بجٹ میں 200سے300ارب روپے کا اضافہ کریگی،گوادر سی پیک کا اہم ترین حصہ ہے مگر آج بھی گوادر بجلی سے محروم ہے،
سی پیک کے تحت گوادرمیں پاور پلانٹ لگانے کی بجائے ایران سے مہنگے داموں بجلی خریدی جارہی ہے، بلوچستان میں لوگ پانی، صحت، تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں
پیپلز پارٹی اقتدار میں آکر بنیادی مسائل کو حل کریگی،پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں ہے غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں جنہیں دور کرلیا جائیگا، یہ بات انہوں نے جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماء حاجی علی مدد جتک، سید اقبال شاہ، میر عمران بنگلزئی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان حکومت میں جاری اختلافات حکومت کا اپنا معاملہ ہے پیپلز پارٹی اس میں فریق نہیں ہے البتہ بلوچستان حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے حکومتی جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے وزیراعلیٰ بطور پارٹی صدر اپنی جماعت اکھٹی نہیں کر سکے میری سمجھ میں جام کمال خان موجودہ حکومت کے بہتر آدمی تھے مگر وہ بھی سوچ پر پورا نہیں اترے اور ٹیم نہیں بنا سکے
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ دو انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی جس کے بعد مرکز کی جانب سے اہم ترین ذمہ داری دی گئی ہے ہم صوبے بھر میں کارکنوں کو متحرک اور دن رات محنت کر کے ایسی قیادت دیں گے کہ جو پسماندہ، نظر انداز، محرومیوں کا شکار صوبے کو اسکا جائز حق آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دلوائے گی ہم اپنے حقوق چھین کر غریب عوام کے مسائل حل کریں گے
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام پینے کے پانی، ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور تعلیمی اداروں میں استاتذہ سے محروم ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کوئی جماعت یا عوام اس پر احتجاج کرنے کو تیار نہیں معاشرے میں احساس ختم ہوچکا ہے صوبے کی پسماندگی کے ذمہ دار پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواء نہیں بلکہ یہیں کے حکمران ہیں
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو صرف 6سے 8گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ لوگ یہاں بل نہیں دیتے لیکن دراصل بل نہ دینے والے ٹیوب ویل ہیں جوکہ تعداد میں 5فیصد ہیں مگر انکی وجہ سے 95فیصد افراد کو بجلی نہیں مل رہی
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال واپڈا کو بجلی کے بل کی مد میں 25ارب روپے تک دیتی ہیں اگر اسی رقم کو استعمال کرکے ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل کردئیے جائیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے
انہوں نے کہا کہ ہم ملک سے محبت کرتے ہیں ہم کسی نے خلاف نہیں بلکہ اس نظام کے خلاف بات کرتے ہیں جو صوبے کی حق تلفی کر رہا ہے اور سہولیات نہیں دے سکتا
انہوں نے کہا کہ مکران کو ایران سے آنے والی بجلی کی ٹرانسمیشن لائن سے صرف 30میگا وا ٹ بجلی فراہم کی جاسکتی ہے جبکہ سی پیک کے تحت بننے والا پاور پلانٹ کا منصوبہ آج بھی التواء کا شکار ہے اس منصوبے سے 3.7سینٹ پر بجلی فراہم کی جاسکتی ہے جبکہ اس وقت 8سینٹ پر ایران سے بجلی خریدی جارہی ہے
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لئے سی پیک میں 800ملین ڈالر رکھے گئے تھے جن میں سے 150سے 200ملین خرچ نہیں ہوئے 230ملین ڈالر سے ایئرپورٹ، 190ملین سے ایکسپریس وے،70ملین سے بریک واٹر منصوبہ بن رہے ہیں گوادر سی پیک کا اہم ترین حصہ ہے مگر آج تک اسے بجلی فراہم نہیں کی گئی، ملک بھر میں سی پیک سے موٹر وے بنے مگر بلوچستان میں 1کلو میٹر بھی موٹروے نہیں بنایا گیا کیا بلوچستان کے عوام کا حق نہیں ہے کہ انہیں بھی ترقی ملے
انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال کریں گے ہم گھر گھر جاکر اپنا پیغام عام کریں گے فنڈز، ٹھیکیدار، بلیک میلنگ کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے کارکنوں کے جو بھی تحفظات ہیں انہیں دور کریں گے اگر حکومت ملی تو صوبے کے پی ایس ڈی پی میں ریکوڈک، سیندک، پورٹ، ہائی ویز، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 200سے 300ارب ڈالر اضافی شامل کریں گے
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت عوام پر مہنگائی کے بم گرا رہی ہے اب عوام انتظار میں ہیں کہ مہنگائی کا ایٹم بم کب گریگا کہ جب سب ختم ہوجائیگا انہوں نے کہا کہ حکومت پانچ روپے پیٹرول مہنگاکر کے کہتی ہے کہ اب بھی خطے میں سب سے کم ریٹ ہمارے ہیں لیکن ہمارے یہاں ڈالر تاریخی عروج پر ہے وزیرخزانہ بتائیں کہ ڈالر مہنگا ہونے سے کتنے ارب روپے اضافی قرضے میں دینے پڑیں گے
انہوں نے کہا کہ بین القوامی سطح پر مہنگائی ضرورہوئی ہے مگر وہاں کے لوگوں کی آمد ن بھی زیادہ ہے حکومت نے عام آدمی کی آمدن بڑھانے کے کوئی اقدامات نہیں کئے حکومت ملک کو بادشاہت کی طرز پر چلا رہی ہے انتخابی ترامیم ہوں یا چیئر مین نیب کی مد ت ملازمت میں توسیع حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا ملک ایسے نہیں چلا یا جا سکتا
انہوں نے کہا کہ دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہورہی ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے ہمارے لئے بہت سے خطرات ہیں ہم افغان امن عمل کو سپورٹ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہاں امن ہو یہی پاکستان کے حق میں بھی بہتر ہوگا
انہوں نے کہا کہ ہماری فورسز، پولیس نے صوبے میں امن کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبے میں پارٹی کو اکھٹا کر کے چلانے کی ضرورت ہے وسیع و عریض رقبے کی وجہ سے صوبے میں جماعت کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے فی الحال صوبائی قیادت تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر پارٹی قیادت نے مستقبل میں بہتر سمجھا تو وہ یا تو انتخابات کروائے گی یا پھر اتفاق رائے سے نئی قیادت کا اعلان کریگی
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے صوبائی صدر موجود نہیں ہیں، صوبائی جنرل سیکرٹری کو پریس کانفر نس میں شرکت کی دعوت دی تھی انکے نہ آنے کی وجہ معلوم نہیں ہے میں نہیں سمجھتا کہ وہ میرا بائیکاٹ کریں گے
انہوں نے کہا کہ غلط فہمیاں ہوجاتی ہیں جنہیں ختم کرلیا جائیگا انہوں نے مزید کہا کہ چیف سیکرٹری بلوچستان نے افسران کو پاکستان زندہ باد کی کالر ٹیون لگانے کی ہدایت کی ہے یہاں کا بچہ بچہ پاکستان زندہ باد کہتا ہے ایسے کام نہ کئے جائیں جن سے ابہام پیدا ہو اور ہماری حب الوطنی پر سوالات کئے جائیں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے دور میں ڈھائی ڈھائی سالہ حکومت بنانے پر اختلافات ہوئے تھے۔