معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نہ صرف منی لانڈرنگ کے مرتک پائے گئے بلکہ ایف آئی اے کے چالان کے مطابق وہ اس گروہ کے سرغنہ بھی ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نتے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے شہباز شریف اور ان کے خاندان سے متعلق کرپشن، منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس سے متعلق مقدمے کا چالان عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چالان کے مطابق شہباز شریف، ان کے بیٹے حمزہ شہباز، سلیمان شہباز اور دیگر ملزمان 28 خفیہ بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے 16 ارب سے زائد کی منی لانڈرنگ کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
شہزاد اکبر کے مطابق یہ 28 اکاؤنٹس 2008 سے 2018 کے درمیان رمضان شوگر ملز کے چھوٹے ملازمین کے نام پر کھولے گئے، یہ معمولی تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین تھے جن کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی لین دین ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ مکمل چالان نہیں ہے کیونکہ اس میں شامل کچھ ملزمان مفرور ہیں اور مرکزی ملزم سلیمان شہباز ملک سے باہر ہیں اور اشتہاری ملزم ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ عدالت کے حکم کے مطابق ابتدائی چالان داخل کرادیا گیا ہے جس کی بنیاد میں مقدمے کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس چالان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کس طرح اقتدار میں موجود افراد نے وہ جرائم کیے جن کی پاداش میں ملک آج ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 60 سے زائد صفحات پر مشتمل اس چالان کے ساتھ 4 ہزار سے زائد دستاویزات لگائی گئی ہیں جبکہ 100 سے زائد گواہان شامل ہیں جن کی گواہی اہم بھی ہے اور ضروری بھی۔
معاون خصوصی نے کہا کہ مقدمے میں نہ صرف شہباز شریف منی لانڈرنگ کے مرتک پائے گئے بلکہ ایف آئی اے کے چالان کے مطابق وہ اس گروہ کے سرغنہ اور ماسٹر مائنڈ بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کئی بینکوں میں موجود ان اکاؤنٹس کی 17 ہزار ٹرانزیکشنز کی جانچ کی گئی اور اسی وجہ سے اس چالان کو مکمل کرنے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا۔
انہوں نے ان اکاؤنٹس کی تفصیلات بتانے کے بعد خواہش ظاہر کی کہ ان مقدمات کا جلد از جلد کوئی منطقی نتیجہ نکلے۔
شہزاد اکبر نے عدلیہ سے بھی درخواست کی کہ ان مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے۔