واشنگٹن: امریکی صدر کی انتظامیہ کے اعلی سطح کے ماہرین نے جو بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو تہران کے ساتھ پھر سے دھمکی آمیز سفارت کاری اختیار کی جائے اور ایران کی جوہری پیش رفت کے خلاف واضح طور پر فوجی طاقت استعمال کرنے کی تیاری کی جائے۔ جوہری معاملے میں ایران سرخ لکیر سے تجاوز کر چکا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یہ موقف امریکی قومی سلامتی کے شعبے کے 7 نمایاں ماہرین کی جانب سے جاری ایک بیان میں سامنے آیا۔بیان میں کہا گیا کہ ایران کا حالیہ رویہ اس بات کی جانب اشارہ دیتا ہے کہ وہ نہ صرف جوہری ہتھیاروں کے اختیار کو برقرار رکھنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس صلاحیت کو ترقی دینے کے لیے متحرک ہے۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ڈائریکٹر رافائیل گروسی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ایران کی جانب سے 60% تناسب سے یورینیم کی افزودگی اور یورینیم دھات کی پیداوار کا شہری مقاصد کے حوالے سے کوئی جواز نہیں۔امریکی ماہرین نے یاد دہانی کرائی کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ یورینیم کی افزودگی کا زیادہ سے زیادہ تناسب 3.67% تھا۔
اس حوالے سے 20% کے تناسب سے افزودگی امریکا کے سامنے سرخ لکیر تھی اور اب ایران 60% کے تناسب سے یورینیم کی افزودگی انجام دے رہا ہے اور 90% کی جانب منتقل ہونے کا خطرہ ہے۔امریکی ماہرین نے متنبہ کیا کہ امریکا اور ایران مخالف ممالک کی جانب سے سیاسی تنہائی ، بین الاقوامی فورموں پر مذمتی قرار دادیں اور اضافی اقتصادی پابندیاں اس مرحلے پر تہران کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر قائل کرنے کے واسطے کافی نہیں ہیں۔بیان میں مجوزہ امریکی اقدامات میں امریکی مرکزی کمان کی جانب سے اعلی سطح کی فوجی تربیت شامل ہے جو ممکنہ طور پر امریکا کے حلیفوں اور شراکت داروں کی رابطہ کاری سے انجام دی جا سکتی ہے۔اسی طرح خطے میں واشنگٹن کے حلیفوں اور شراکت داروں کو اور امریکی تنصیبات اور اثاثوں کو بھرپور دفاعی صلاحتیں فراہم کرنا اہم ہو گا تاکہ ایران کی جانب سے کسی بھی انتقامی اقدام کا مقابلہ کیا جا سکے۔