کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے ارکان کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں لوڈشیڈنگ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے وسائل کو بروئے کار لاکرکوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے جائیں سیزن میں کیسکو حکام بجلی بند کرکے زمینداروں کو بلیک میل کررہے ہیں اسمبلی نے خدمات پر سیلز ٹیکس اور ریونیو اتھارٹی کے مسودہ قوانین کی منظوری دیدی اسمبلی کا اجلاس قائم مقام اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں 30منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تلاوت کے بعد رکن اسمبلی حسن بانو رخشانی ،راحیلہ حمید ردانی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کراچی میں بجلی کے باعث اور مستونگ میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق افراد کیلئے فاتحہ خوانی کی درخواست کی اور کہا کہ کراچی میں جو صورتحال درپیش ہے اس پر ہر پاکستانی اور بلوچستانی کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اسکے علاوہ مستونگ میں 12افراد ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے ان واقعات پر نہ صرف دعابلکہ سوگ کا اعلان کیا جائے۔جس پر ایوان میں مرحومین کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی ۔مشیر خزانہ میرخالدلانگو نے میزانیہ بات 2014-15 اور 2015-16ء کے گوشوارے میز پر رکھے جس کے بعد میرخالد لانگو نے بلوچستان میں خدمات پر سیلز ٹیکس کا مسودہ قانون مصدرہ 2015ء اور بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا مسودہ قانون مصدرہ 2015ایوان میں پیش کئے جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔وزیر قانون عبدالرحیم زیارت وال نے مجلس قائمہ برائے سوشل ویلفیئر ،ترقی نسواں ،زکواۃ ،عشر ،حج ،اوقاف اور اقلیتی محکمہ جات کی اسٹینڈنگ کمیٹی کیلئے ڈاکٹر شمع اسحاق ،مجلس قائمہ صحت بہبود آبادی محکمہ جات کیلئے گھنشام داس،مجلس قائمہ برائے ایس اینڈ جی اے ڈی بین الصوبائی رابطہ قانون و پارلیمانی امور وانسانی حقوق محکمہ جات کیلئے ولیم جان برکت ،مجلس قائمہ کمیٹی برائے زراعت کوآپریٹو ،لائیو سٹاک و ڈیری ڈویلپمنٹ ،ماہی گیری و خوراک کیلئے منظوراحمد کاکڑ کے نام پیش کئے جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی۔پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈپٹی اپوزیشن لیڈرانجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں بجلی کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا ہے 18ویں ترمیم کے بعدصوبائی حکومت کویہ اختیار حاصل ہے کہ وہ 50میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کے پاور ہاؤسز لگاسکتے ہیں اس وقت دیہاتی علاقوں میں صرف 2گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے جس کی وجہ سے فصلات اور د رخت سوکھ گئے ہیں اور کھڑی فصلات کو نقصان پہنچا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈ ی پی 250ارب ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ پرمشتمل ہے ہم نے اپنے مفادات کو مد نظررکھنا ہے صوبائی حکومت کیلئے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ 5،5ارب کے دو پاور ہاؤسز صوبے کے مختلف علاقوں میں لگائے تاکہ عوام کو بجلی کا تحفہ دے سکے اور یہ مسئلہ ہم اپنے صوبے میں ہی حل کریں ۔انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام کی زندگی کا دارومدار 80فیصد زراعت پر ہے سیزن شروع ہوتے ہی کیسکو بجلی بندکرکے زمینداروں کو بلیل میل کر رہا ہے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے باغات اور درخت سوکھ گئے ہیں کوئلہ اور گیس ہمارے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں اگر ہم ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر اپنے وسائل پر پاور ہاؤسز بنادیں ۔رکن اسمبلی کشور جتک نے بجٹ پاس ہونے پر وزیراعلیٰ ،کابینہ اور اتحادی جماعتوں کو مبارکباد دی اور مطالبہ کیا کہ بلوچستان اسمبلی کے ملازمین کو بونس تنخواہ دی جائے۔ رکن اسمبلی لیاقت آغانے کہا کہ بجلی ملک اور صوبے کا اہم مسئلہ ہے وزیراعلیٰ نے مختلف اجلاسوں میں مسئلے کے حل کیلئے شرکت کے مواقع دیئے تاکہ ہم اپنا کیس موثرانداز میں پیش کرکے بجلی کا مسئلہ حل کرائیں ۔انہوں نے کہا کہ لورالائی،شہداد کوٹ اور خضدار کیلئے جو بجلی کی لائنیں بچھائی گئی ہیں اس میں سے صرف 70فیصد کام ہواہے وزیراعلیٰ سے درخواست ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رابطہ کرکے ان لائنوں پر 100فیصد کام کرانے کو پابند بنائے تاکہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب نے چین کے ساتھ سولر ،کول اور ونڈ سسٹم کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کئے ہیں قیصر بنگالی کی شکل میں بہترین اکنامسٹ ہمارے پاس موجود ہے انکی سربراہی میں ایک کمیٹی بنادیں تاکہ وہ کول ویسٹ پر 50،50میگاواٹ بجلی کے تھرمل پاور ہاؤسز بنانے پر کام کریں انہوں نے کہا کہ کوریا اور چین بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کیلئے آسان شرائط پر قرضے دینے کیلئے تیار ہیں۔میرعبدالکریم نوشیروانی نے کہا کہ حب اور اوچ پاور ہاؤسز سے ہماری بجلی براہ راست نیشنل گرڈ کو چلی جاتی ہے اگر ہمیں ان دو ہاؤسز سے بجلی فراہم کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ ایران ہمیں گیس اور بجلی دینے کیلئے تیار ہے لیکن ہم مغربی طاقتوں کو نارا ض نہ کرنے کی وجہ سے بجلی نہیں لے رہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے زمیندار نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں بلوچ اور پشتون علاقوں میں باغات خشک ہوگئے ہیں لوڈشیڈنگ کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی منظورکاکڑ نے کہا کہ سریاب ،خروٹ آباداوردیگرعلاقوں میں لوڈشیڈنگ شہر کے دیگر حصوں کی نسبت بہت زیادہ ہورہی ہے جبکہ وہاں لوگوں کوبھاری بل بھی بھیجے جارہے ہیں جب اس سلسلے میں کیسکو حکام سے بات کی جاتی ہے تو وہ ان علاقوں میں بجلی چوری اور ریکوری کم ہونے کا بہانہ کرتے ہیں حالانکہ صرف 10فیصد لوگ بل جمع نہیں کرتے اسکی سزا90فیصد لوگوں کو نہ دی جائے۔رکن اسمبلی راحیلہ درانی نے کہا کہ میں نے گزشتہ اجلاس میں واسا کی جانب سے گندا اور مضر صحت پانی سپلائی کئے جانے کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کرائی تھی جس کا وزیراعلیٰ نے سختی سے نوٹس لیااورکمیٹی بنادی مگر افسوس کہ واسا نے اگلے روز صرف دو سطرو میں وضاحتی بیان جاری کیا اور عوام کو ہدایت کی کہ یہ پانی پینے سے گریز کیا جائے اور ساتھ ہی وجہ یہ بتائی گئی کہ ریزروائرسے گندا پانی آرہا ہے جبکہ واسا کایہ بھی موقف ہے کہ یہ صرف انسکمب روڈ کا مسئلہ ہے حالانکہ ایسانہیں یہ شہر کے بہت بڑے حصے کا مسئلہ ہے اگر لوگ یہ پانی پیتے رہے تو انکے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔رکن اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ ہماری قومی شاہراہوں پرٹریفک حادثے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ہم مرنے والوں کواب نہیں گن سکتے ریجنل اور صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹیاں موجود ہیں لیکن وہ اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام نہیں دہے رہی سندھ اور پنجاب کے انڈس ہائی وے اور موٹر وے پرموٹروے پولیس ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے کام کرر ہی ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی موٹر وے پولیس نہیں جو حالات کو کنٹرول کرسکے اکثر ڈرائیوروں کے پاس لائسنس تک نہیں بسوں کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے ۔ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ رمضان کے مہینے میں اگر ہم عوام کو بجلی اور پانی فراہم کریں تو ہم سپر سٹار بناجائیں گے۔ رکن اسمبلی عاصم کرد گیلو نے کہا کہ بجلی کے حوالے سے کیسکو حکام نے جو وعدے کئے تھے اس پر عملدرآمد کرایا جائے ہمارے حلقے میں آج بھی سحری اور افطاری کے وقت لوڈشیڈنگ جاری ہے زمینداروں کے باغا ت اور پھل سوکھنے کے قریب ہیں ۔ڈاکٹر حامداچکزئی نے کہا کہ این ایچ اے والوں کو بلائیں اور انہیں پابند بنایا جائے کہ وہ قومی شاہراہوں پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ بجٹ سے قبل حکومتی پارٹیوں کی درخواست پراپوزیشن نے مسائل کے حل کی یقین دہانیوں پر بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ ختم کیا تھالیکن ہمارے ساتھ وعدے وفا نہ کئے گئے جس کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹیو ں میں اپوزیشن ارکان کے جو نام شامل کئے ہیں احتجاجاً مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور ہم کسی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہونگے۔جس کے بعداسپیکر نے گورنر بلوچستان کا حکم پڑھ کر اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیا۔