ہم عجیب قوم ہیں ، جب تک کوئی سانحہ نہ ہو جائے اور چند اموات نہ ہو جائیں ہم ہوش میں نہیں آتے۔ اور حکمران تو انسانی نسل سے لاتعلق اور انسانی صفات سے محروم محسوس ہوتے ہیں۔ ہم ہر سیزن کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔لیکن ہر تہوار کو ہم مقتل بنا دیتے ہیں۔ حال ہی میں مری میں برف باری میں پھنس جانے اور بروقت مدد نہ ملنے کے باعث 21 افراد جاں بحق ہو گئے۔
زوردار برف باری میں گاڑیاں پھنس گئیں سب گاڑیوں میں ہیٹر چل رہے تھے، ٹریفک جام تھا، سب نے سوچا ہیٹر چلا کر گاڑی میں ہی رات گزاری جائے،جس گاڑی کو یہ سب محفوظ سمجھ رہے تھے وہی گاڑی گیس چیمبر بن گئی، برف باری کے باعث گاڑیوں کے سائلنسر یعنی گیس کا ایگزٹ سوراخ بند ہونے سے گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر گئی جبکہ گاڑی میں موجود زندگی کے خواہاں لوگ کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال رہے تھے گاڑیوں کے شیشے بند تھے آکسیجن کی آمد کا کوئی راستہ نہ تھا سفر کی تھکاوٹ سے بہت سے لوگ سو گئے پھر کاربن مونو آکسائیڈ نے سب کو سْلا دیا، جب بھی کبھی ایسی صورتحال کا سامنا ہو جائے کبھی ہیٹر چلا کر مت سوئیں۔
اب جب سانحہ ہو چکا ہے تو اب ہر طرف سے مختلف افراد و ادارے سوشل میڈیا کے ذریعے امدادی سرگرمیوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ انہیں بھی کچھ جلدی کرنی چاہیئے تھی۔ مری میں ہرسال برف باری ہوتی ہے اور پورے ملک سے لوگ اس برف باری کے خوبصورت منظر کو دیکھنے آتے ہیں۔ لیکن اس کا اختتام عمومی طور پر اچھا نہیں ہوتا۔ اس کی وجوہات اور حل سہ جہتی ہیں۔ ہر گروہ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی، تب ہی ہم خوشیاں منانے کے اہل ہوں گے۔
اول:۔
سب سے پہلی اور اہم وجہ حکومت کی مکمل نا اہلی ہے۔ حکومت کے پاس وسائل موجود ہیں کہ وہ اس تفریحی مقام کو خوبصورت اور سہولیات سے آراستہ بنائے اور سیاحوں کو یہاں آتے ہوئے اطمینان مل سکے۔ ملک میں اس مقام کو اسلام آباد سے قربت کے باعث زیادہ آسانی سے سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اور جب معلوم ہے کہ چند دنوں میں لاکھوں لوگ آتے ہیں تو ان کے مطابق ضروریات و سہولیات کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ اس سے لاکھوں لوگ جو محتاط ہیں اور ابتدائی برف باری کے دنوں میں مری جانے سے احتراز کرتے ہیں ، یا جو لوگ پہنچ نہیں پاتے اور رستے میں ہی خوار ہو کر واپس آجاتے ہیں، ان کو بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ جب سیاحوں کی کثرت ہو گی تو یقینی طور پر معیشت میں بہتر ہوگی۔ جس سے حکومت کو اپنی فراہم کردہ سہولیات کے بدلے منافع ملے گا۔ مری میں دونوں موسموں، نیز عید ین اور دیگر چھٹیوں میں لاکھوں لوگ آتے جاتے ہیں۔ ایسا پر ہجوم شہر بہترین کاروبار کا مرکز ہو سکتا ہے۔
نیز حکومت کو موسمی آفات سے نمٹنے کیلئے انتظامات پہلے سے کر لینے چاہیئیں نہ کہ چند اموات کے بعد ادارے حرکت میں آئیں۔ اس جہت پر حکومت کی توجہ قابل مذمت حد تک ہے۔ مستقبل کے بجٹس میں سیاحت کی وزارت کو اس ضمن میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
دوم :- مقامی آبادی۔
شہر مری کے ارد گرد پہاڑوں پر موجود لوگ غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر جب کمائی اور چھپر پھاڑ کمائی شروع ہوئی تو یہ لوگ بھی دن رات کمائی میں لگ گئے اور انسانیت کی ساری قدریں بھول گئے۔ ہوٹل مافیاز نے دیگر مافیاز کو جنم دیا۔ اور اس طرح سیاحوں کیلئے مری جانا ایک مصیبت ہی ثابت ہوا۔ ہوٹلز، ریسٹورنٹس کے ہوشربا کرائے اور کھانے پینے کی انتہائی ناقص معیار ہونے کے با وجود بہت بھاری قیمتوں نے ہوش ٹھکانے لگا دیئے۔ کچھ عرصہ قبل ہوٹلز کے خلاف چند روزہ احتجاج بھی ہوا۔ مگر حالت سدھرنے کی نظر نہیں آتی۔اب بھی ابتدا میں ریٹس ہو شربا ہونے کے باعث ہی لوگ اپنی گاڑیوں میں رات بسر کرنے کیلیے تیار ہوئے۔ اس صورت میں مری کے ارد گرد قریب رہنے والوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں کو ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں بدل دیا۔ مگر سہولیات ناپید۔ اور رفتہ رفتہ یہ بھی ان ہوٹل مافیا کے رنگ میں ہی رنگے گئے۔ یہ لوگ مفت میں کسی کو اپنے گھروں میں نہ ٹھہرائیں ، مگر مناسب قیمت پر تو اپنے گھروں کی بیٹھکوں میں مہمانوں کو پے انگ گیسٹس کی صورت میں رکھ سکتے ہیں۔ جہاں رہنے اور کھانے کا بہتر انتظام ہو سکتا ہے۔ جہاں یہ کام ہوٹلز مافیاز کی گردن کا سریا نکال دے گا وہیں ان کیلئے مناسب آمدنی کا ذریعہ بن جائے گا اور باہر سے آنے والے ان دشواریوں سے بچ جائیں گے۔
سوم :-
جب ہمیں معلوم ہے کہ ہم بے حس معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے حکمران 33 میل دور بھی ہماری فریاد اس وقت تک نہ سنیں گے جب تک لاشیں اپنی صدا بلند نہ کریں تو ہمیں تفریح کی نہیں احتجاج کی ضرورت ہے۔ ہمارا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کوئی موسم انجوائے کر سکیں۔دیگر کئی ممالک کی برفباری کے بر عکس ہمارے ملک کی برف باری اتنی نہیں ہوتی کہ یہ سانحہ بنے لیکن ہماری اجتماعی بے حسی اسے سانحہ اور حادثہ بنا دیتی ہے۔ عوام خود بھی ذمہ دار ہے لیکن تیسرے نمبر پر۔ کس کا دل نہیں چاہتا کہ زندگی کے جھمیلوں سے ذرا دور سال کے چند دن برفباری کی خوبصورت کو یادگار بنا لیا جائے۔ لیکن اس کیلئے ضروری تیاری ضروری ہے۔ سردی کی شدت کا سامنا کرنے اور غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کیلیے اور اپنے بچائو کیلئے ضروری اقدامات کے بغیر نکلنا ویسے بھی رسک اور احمقانہ حرکت ہے۔
سماجی خدمت کی جن تنظیموں نے اب کام شروع کیا ہے اور فوج بھی میدان میں اتر چکی ہے۔ ان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بڑی دیر کر دی مہربان آتے آتے۔
سانحات ہونے کے بعد زندہ قومیں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے حکمت عملی بناتے ہیں۔ چند لاکھ افراد کیلئے انتظامات کرنا یا انتظام نہ ہونے کی صورت میں انٹری نہ دینے پر بچائو ممکن ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ان جان بحق افراد کوبلند درجات ، ان کے لواحقین کو صبر ،حکومت کو احساس اور عوام کو شعور عطافرمائے۔ آمین