بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ” وہ جام صاحب کو نکالنے کے ثواب میں شامل ضرور ہیں لیکن قدوس بزنجو کے لانے کے گناہ میں شامل نہیں۔” سردار صاحب نے یہ جملہ اپنے ایک حالیہ گفتگو کے دوران ادا کیا جس کی کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں غالباً سردار صاحب میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔
سردار صاحب کی گفتگو کے اس کلپ کو بی این پی کے ایم پی اے ثناء بلوچ کی کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریر کے کلپ کے ساتھ جوڑ کر متضاد بیانیئے کے طورپر بھی پیش کیا جارہا ہے جس میں ثناء بلوچ قدوس بزنجو کو لانے کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں “ہم نے پارلیمانی ہنر کا استعمال کرکے جام کو نکالنے اور قدوس کو لانے میں کردار اداکیا تھا۔”
بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تبدیلی کے بعد سیاسی ناقدین متحدہ اپوزیشن کو یہ کہہ کر تنقید کا بھی نشانہ بنارہے تھے کہ عبدالقدوس بزنجو کو لانے میں بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام نے کلیدی کردار اداکیا ہے۔ یہ کنفیوژن موجود تھی کہ 18 جنوری کے اسمبلی اجلاس میں ثناء بلوچ نے اپنی تقریر کے دوران ایک اور پنڈورا باکس کھول دیا ۔ ثناء بلوچ نے اپنی اسمبلی تقریر میں انکشاف کیا کہ “جام کمال حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے متحدہ اپوزیشن نے عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ 24 نکاتی معاہدہ کیا ہے۔ سو دن پورے ہونے پر نئی صوبائی حکومت بی این پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل نہیں کررہی ہے”۔تاہم ثناء بلوچ کے اس بیان پر صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کسی بھی معاہدے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی وزیر نے اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے “بلوچستان عوامی پارٹی کا اپوزیشن کے ساتھ حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے البتہ بی این پی کے سر کردہ رہنما کا یہ بیان وضاحت طلب ہے؟”
جام حکومت گرانے سے قبل کسی نے متحدہ اپوزیشن کے 24 نکاتی معاہدہ کا چرچا نہیں سنا تھا اور نہ ہی بی این پی نے اس کو پبلک کیا ہے۔ ایک طرف سردار صاحب نے واضح کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ پر پہنچانے کے عمل کو گناہ گردانا ہے اور دوسری طرف ثناء بلوچ نے 24 نکاتی معاہدہ کے حوالے سے انکشاف کرکے اپنے پارٹی سربراہ کے موقف کی نفی کی ہے جس نے بی این پی کے اندر بادی النظر میں بیانیہ کی تقسیم کے حوالے سے نئی بحث کے امکان کو مضبوط کیا ہے۔
بی این پی کے سربراہ اور پارٹی کے سینئر رہنماء ایم پی اے ثناء بلوچ کے موقف میں واضح تضاد کے بعد بی این پی اپنا کیا موقف پیش کرے گی وہ آئندہ دنوں میں شاید واضح ہوجائے۔ اگر اس پر خاموشی اختیار کی گئی تو حکومت کی تبدیلی کے گناہ کو گناہ بے لذت نہیں سمجھا جائے گا اور بی این پی کے سیاسی بیانیے کو تنقید کا سامنا رہے گا۔