|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2022

دالبندین : کوئٹہ کراچی شاہراہ کے بعد اب کوئٹہ تفتان شاہراہ بھی خونی شاہراہ بن گئی۔ ٹریفک حادثات میں اضافہ قیمتی جانیں لقمہ اجل مگر وفاقی و صوبائی حکومتیں بشمول عوامی نمائندگان بدستور غافل۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کراچی شاہراہ کو خونی شاہراہ کہنے اور سننے کا تو ہر کسی نے سنا ہوگا مگر اب کوئٹہ تفتان شاہراہ بھی خونی شاہراہ بنتا جارہا ہے کوئٹہ تفتان شاہراہ جو کہ چار اضلاع یعنی کوئیٹہ مستونگ نوشکی اور چاغی کے اضلاع سے ہوتی ہوئی ہمسایہ ملک ایران تک جا پہنچتی ہے مگر کوئٹہ تفتان شاہراہ بالخصوص دالبندین تا تفتان ٹریفک حادثات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جس کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں نقصان ہوچکی ہیں کیونکہ اس روٹ پر تیز رفتار مسافر کوچز کے ساتھ ساتھ چھوٹی گاڑیاں جن میں پک اپ کار موٹرز شامل ہیں جو کہ حد سے زیادہ اسپیڈ لگاتے ہیں جنھیں چیک اینڈ بیلنس کرنے والا کوئی نہیں جبکہ روٹ لمبا ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے لوڈ گاڑیاں جن میں ٹرالرز ٹرک مزدا گاڑیاں شامل ہیں ان کے ڈرائیورز بھی لاپرواہی کا شکار بن کر ٹریفک حادثات کا سبب بنتے ہیں مگر ٹریفک حادثات میں سرفہرست زمباد گاڑیاں ہیں جن کا اسٹیرنگ رانگ سائیڈ پر ہوتا ہے دوسری ان کے اکثر و بیشتر ڈرائیور یا تو کم عمر لڑکے نا تجربہ لوگ ہیں جو کہ ٹریفک کے اصولوں سے مکمل طور پر نابلد ہیں اسی طرح گاڑیوں میں اووور لوڈنگ بھی ایک اہم مسئلہ ہے آئے روز ٹریفک حادثات کے سبب صرف ایک مہینے کے اندر اسی شاہراہ پر درجنوں قیمتی جانیں موت کے منہ میں چلے گئے ہیں بلکہ بہت سارے لوگ اپاہج اور زخمی بن کر ناکارہ انسان بن چکے ہیں۔

چند روز قبل دالبندین کے قریب اسماعیلی لانڈھی میں ایک ہی خاندان کے چار افراد ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے جبکہ اسی حادثے سے دو روز قبل دو افراد گاڑیوں کے الٹنے سے موت کے منہ میں چلے گئے ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات افسوسناک ہیں مگر حکومتی خاموشی بھی باعث تعجب ہے پولیو اور کرونا وائرس سے بچاو کیلئے حکومت سمیت دیگر فلاحی ادارے کام کرکے انسانیت کی بچاو کیلئے مہم چلارہے ہیں مگر ہنستے بستے گھرانوں کو اجڑنے سے بچانے کے لیے کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے اس شاہراہ پر گاڑیوں کی رفتار۔اوور لوڈنگ۔ڈرائیوروں کی لائسنس سمیت تجربہ و عمر اور گاڑیوں کی کنڈیشن چیک کرنے اور ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کرکے ٹریفک حادثات پر قابو پا لیا جاسکتا ہے۔

ورنہ حکومتی عدم توجہی سے قیمتی جانوں کے ضیاع کو ہر گز نہیں روکا جاسکتا۔ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کے ورثاء میتیں دفنانے کے بعد کب تک تعزیت کرکے چیخیں مارتے رہیں گے آخر حکومت وقت کو ٹریفک حادثے میں کمی لانے کے لیے ایک موثر اقدام اٹھانا پڑے گا۔ دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ عوامی نمائندگان بالخصوص چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی، رکن قومی اسمبلی میر محمد ہاشم نوتیزئی، رکن بلوچستان اسمبلی میر محمد عارف محمد حسنی نے بھی علاقے میں ٹریفک حادثات میں کنٹرول کرنے بالخصوص تفتان نوکنڈی یک مچ دالبندین پدگ جو کہ اسی شاہراہ پر واقع ہیں صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا ہے جس سے ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کو کوئٹہ ریفر کر دیا جاتا ہے جو کہ راستے میں دم توڑ دیتے ہیں اگر ان علاقوں میں اچھے ہسپتال۔اچھے ڈاکٹرز اور فرض شناس عملہ تعینات کر دیا جائے تو کسی حد تک انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے