|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2015

کراچی : بلوچ رابطہ اتفاق تحریک ( برات ) کے سربراہ اور خان آف قلات کے چچا پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہے کہ اگر مجھے مکمل اختیار اور وسائل کے ساتھ کوئی ذمہ داری سونپی جائے تو میں بلوچستان میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ بلوچستان کے لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کرنے کے لیے کہ میں کچھ کر سکتا ہوں ، مکمل اختیار اور وسائل ضروری ہیں ۔ وہ لندن سے واپسی پر کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ لندن میں میری خان آف قلات میر سلیمان داؤد سے ملاقات ہوئی ہے ۔ حیر بیار مری اور دیگر بلوچ رہنماؤں سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ خان آف قلات ایک جرگہ کے فیصلے پر لندن چلے گئے تھے ۔ یہ جرگہ 8 سال قبل قلات میں منعقد ہوا تھا ، جب نواب اکبر بگٹی کی شہادت اور دیگر بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کے قتل کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تھے ۔ اس جرگہ میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں ، قبائل اور برادریوں کے نمائندوں سمیت پنجاب اور دیگر صوبوں کے بلوچ عمائدین بھی شریک ہوئے تھے ۔ سابق وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری بھی اس جرگہ میں شریک تھے ۔ اس جرگہ نے فیصلہ کیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر قلات کی پوزیشن کا معاملہ دوبارہ اٹھایا جائے ۔ خان آف قلات جرگہ کے فیصلے کے نتیجے میں بیرون ملک چلے گئے تھے ۔ انہوں نے لندن میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک سمیت کسی سے بھی ملنے سے انکار نہیں کیا ۔ خان آف قلات کا کہنا یہ ہے کہ انہیں جرگہ نے بھیجا ہے ۔ لہذا وہ جرگہ کے فیصلوں کے پابند ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالمالک صرف نیشنل پارٹی کے نمائندہ ہیں ۔ وہ نیشنل پارٹی سے بات نہیں کریں گے بلکہ ڈاکٹر مالک کے ساتھ ایک بلوچ کی حیثیت سے ملاقات کریں گے ۔ پرنس محی الدین بلوچ نے بتایا کہ اگر جرگہ انہیں کہے تو وہ پاکستان واپس آنے کو تیار ہیں لیکن اس سے پہلے بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانا ضروری ہے ۔ پرنس محی الدین بلوچ نے کہا کہ میرے پاس ایک ’’پاکستان فارمولا ‘‘ ہے اور دوسرا میں دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ بلوچ غدار نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میرا پاکستان فارمولا یہ ہے کہ دفاع ، خارجہ اور کرنسی کے امور وفاق کے پاس رہیں اور باقی تمام امور صوبوں کو منتقل کر دیئے جائیں ۔ تمام وفاقی وزارتوں اور اداروں میں تمام صوبوں کے لوگوں کو نمائندگی دی جائے ۔ اس وقت ان اداروں میں افسروں اور ملازمین کا تناسب ٹھیک نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچوں نے پاکستان کے ساتھ ہر معاہدے کی پاسداری کی لیکن بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور انہیں دور دھکیلا گیا ۔بلوچوں پر ہمیشہ جنگ مسلط کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا آئیڈیا یہ تھا کہ بلوچستان کی اسٹریٹجک اہمیت ہے ۔ اس لیے انہوں نے ریاست قلات اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے زبردست کوششیں کیں ۔ انہوں نے کوئٹہ اور مستونگ میں تین تین ماہ تک قیام بھی کیا ۔ آج بھی بلوچستان کی اسٹرٹیجک اہمیت ہے ۔ یہ صوبہ معدنی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ بلوچستان کی طاقت سے ہی پاکستان بن گیا ۔ اس زمانے میں انگریزوں نے میرے والد خان آف قلات کو یہ پیش کش کی تھی کہ جیونی کی بندرگاہ اور کوئٹہ کو 50 سال کی لیز پر انہیں دے دیا جائے لیکن میرے والد نے انکار کر دیا تھا ۔ آج بھی بلوچستان کی قوم پرست تنظیمیں خان آف قلات کے اس فیصلے پر تنقید کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قلات اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کے پاکستان سے الحاق کے بعد جو کچھ ہوا ، وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ بلوچوں کو بار بار دور دھکیلا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ آخری بار میرے والد خان آف قلات اور اس وقت کے گورنر بلوچستان میر احمد یار خان نے یکم جنوری 1976ء کو امن معاہدہ کرایا تھا ۔ میرے والد نے بلوچوں سے اپیل کی تھی کہ وہ مزاحمت ترک کر دیں ۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاک فوج نے بھی اس معاہدے کی حمایت کی تھی ۔ اس معاہدے کے بعد 1999ء تک یعنی 23 سال میں بلوچستان میں ایک گولی بھی نہیں چلی ۔ جو لوگ پہاڑوں لڑ رہے تھے ، انہوں نے اسمبلیوں میں آ کر اپنی بات کی اور وزارتیں بھی حاصل کیں لیکن 1999ء میں ایک مہم جو جنرل پرویز مشرف نے بلا جواز بلوچستان کے حالات خراب کیے ۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ ان کا منصوبہ کیا تھا ۔ انہوں نے خیر بخش مری کو گرفتار کیا ، جو 40 ، 50 ہزار مسلح افراد کے کمانڈر ہیں ۔ مری قبیلے کے ہزاروں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی شہید ہوئے ۔ آج بلوچستان میں حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ، وہ بہت ہی تشویش ناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچوں سے کی جانے والی زیادتیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی قوتیں گھس گئی ہیں ۔ ویسے بھی ملکہ وکٹوریہ اور زار روس کی بلوچستان کے دریا گرم پانیوں تک رسائی کی پالیسی آج بھی موجود ہے ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ امریکی کانگریس نے یہ قرار داد منظور کی ہے کہ بلوچوں کو آزادی کا حق ہے ۔ ایران مسلسل یہ الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں سے ایران میں تخریب کاری ہو رہی ہے ۔ افغانستان یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا ہے ۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر حالات بہت خراب ہیں جبکہ مشرقی سرحدوں پر ہمارے سب سے بڑے دشمن نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے ۔ انہوں نے بلوچوں کا آزادی کے لیے ذہن بن چکا ہے اور وہ کوئی دوسرا راستہ نہیں دیکھ رہے ہیں ۔ بلوچستان میں کوئی ووٹ نہیں ڈالتا ہے کیونکہ عوام کو اس نظام سے دلچسپی نہیں رہی ہے ۔ بلوچستان میں حکومت کی عمل داری بھی نہیں ہے ۔ بلوچستان میں صرف دو فورسز ہیں ۔ ایک سکیورٹی فورسز ہیں اور دوسرے مزاحمت کار ۔ پاکستان کی مخالف قوتیں اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔ صرف بلوچستان ہی نہیں ، پورے پاکستان میں یہ پتہ نہیں چل رہا کہ حکومت کون چلا رہا ہے ۔ بلوچستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن اور بے پناہ معدنی وسائل کی وجہ سے حالات مزید گمبھیر ہو رہے ہیں ۔ بلوچستان میں اس وقت جمہوری آپشن سے مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ بلوچستان کے عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقے جمہوریت کو نہیں مانتے ۔ بلوچستان میں 16 سال سے ڈنڈا استعمال ہو رہا ہے ، اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ بہتر یہی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے روایتی اپروچ ختم کی جائے ۔ ان مخصوص حالات میں اگر مجھے مکمل اختیار اور وسائل کے ساتھ ذمہ داری دی جائے تو میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔