|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2015

سندھ کی کمزور اور ناتواں حکومت بالآخر دباؤ میں آگئی اور توقع کیمطابق اس کو اختیارات میں توسیع کا اعلان کرنا پڑا، اور حکم نامے پر دستخط کردئیے ۔ اس کا کریڈٹ آصف علی زرداری و سابق صدر پاکستان اور پی پی کے سربراہ کو جاتا ہے جس نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو ہدایات جاری کیں کہ رینجرز کے اختیارات میں مزید توسیع کی جائے۔ دوسری جناب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دبے الفاظ میں دھمکی دی کہ وہ سندھ سے رینجرز کو بلالیں گے اگر سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع سے انکار کیا ۔ ظاہر ہے موجودہ سیکورٹی کی صورت حال میں حکومت سندھ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سندھ سے رینجرز کو واپس بھیج دے، عجیب سی بات لگتی ہے ۔ پاکستان حالت جنگ میں ہے بعض ممالک پاکستان کو بحرانوں میں دھکیل دینے کے لئے اکثر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ ان کا رروائیوں کو روکنا سند ھ کی حکومت کی بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ وفاقی فورسز کا کام ہے یہاں مسئلہ صرف اور صرف دائرہ کار میں رہنے کا ہے ۔ رینجرز کوصرف سول انتظامیہ کی مدد کے لئے طلب کیاگیا تھا ،حکمرانی کرنے نہیں ۔، نہ اس لیے کہ وہ سندھ حکومت کے اختیارات کو خود استعمال کرے۔ بنیادی مسئلہ امن و امان کا ہے ۔ رینجرز نے یہ کام چھوڑ کر دفاتر میں چھاپے مارنے شروع کیے جس سے یہ واضح نتیجہ نکل آیا کہ سیاسی پارٹیوں اور اس کے رہنماؤں کو نقصان پہنچائیں اور عوام کو یہ بتائیں کہ ان کی سیاسی پارٹیاں اور رہنما ء کرپٹ ہیں اور 230ارب روپے لوٹ کے لے گئے ۔ اس حوالے سے جان بوجھ کر ایک پریس ریلز جاری کیا گیا جس پر سیاسی رد عمل اور سخت رد عمل کا آنا یقینی تھا۔ اس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے رینجرز کی طلبی کا مطلب صرف قانونی حکومت کی اطاعت ہے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکالنے کا نہیں ہے ۔پاکستان کا بنیادی مسئلہ دہشت گردی ہے ۔ پہلے اس کو حل کیاجائے امن و امان بحال کیا جائے پھر اس کے بعد دوسرے مسائل کو حل کیاجائے ۔ ہم ان کالموں میں اس بات پر زور دیتے رہے ہیں یہ سارے کام پولیس کے ہیں ۔ فوج اور نیم فوجی اداروں کے نہیں ہیں ۔ باقی تمام اداروں کو پولیس کی مدد کرنی چائیے ۔ جرائم اور دہشت گردی کے خلاف پولیس ہی پہلی دفاعی لائن ہے پولیس کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ پہلی دفاعی لائن نہ ٹوٹے اور دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو شکست دی جائے ۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک میں پولیس سے ہی کام کروائی جارہی ہے ۔ فوج شاذو نادر ہی استعمال ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں روز اول سے پولیس کی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچایا گیا ۔ وزیراعظم سے لے کر دوسرے سرکاری ملازمین جو اعلیٰ ترین عہدوں پر ہیں ۔ آئے دن لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھا رہے ہیں کہ پولیس کرپٹ ہے نا اہل ہے اور دوسرے لوگ جن کا سماج سے تعلق نہیں وہ سب کچھ ٹھیک کریں گے ۔ اس پر بھی ہم حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ لیڈر شپ کا کردار پولیس کو دیا جائے اس پر اعتبار کیاجائے اور نیم فوجی دستے پولیس کی رہنمائی میں کام کریں اور پولیس کی مدد کریں ۔ چھاپے پولیس مارے اور رینجرز صرف سیکورٹی فراہم کرے ۔ رینجرز نے بہت سے اچھے کام کیے مگر اس کا کریڈٹ رینجرز کو نہیں دیا گیا کیونکہ اس کے عوام کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں ۔ ایک چھاپے کے دوران ہزاروں افراد و بوڑھے و بچے و بیمار سب کو سڑکوں پر نہ صرف بے عزت کیاجاتا رہا بلکہ ان کو گھنٹوں بندوق کی نوک پر حراست میں رکھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے رینجرز کے اچھے کاموں کی عوام میں پذیرائی نہیں ہوئی اس لئے نیم فوجی دستوں کو پولیس کے ماتحت کیاجائے ۔ سندھ حکومت پر فرض ہے کہ پولیس کی کارکردگی میں اضافہ کرے اور ان کی استعداد کار بڑھائے تاکہ ہر قسم کے حالات کا سامنا پولیس خود کرے جیسا کہ دنیا کے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ بہر حال یہ خوش آئند بات ہے کہ سندھ حکومت نے رینجرز کے قیام میں توسیع دی اور اس کو پولیس کے تمام اختیارات بھی دئیے تاکہ دہشت گردی کے خلاف آخری فتح عوام کی ہو اور کراچی میں دیر پا امن قائم ہو ۔ سنھ حکومت اس تاثر کو بھی زائل کرے کہ حکومت میں شامل چند افراد جرائم پیشہ افراد کی سرپستی کررہ یہیں جرائم کی سرپرستی حکومرانوں کو زیب نہیں دیتی ۔ لہذا یہ تاثر بھی ختم ہوناچا ئیے ۔