|

وقتِ اشاعت :   September 11 – 2015

c آفتاب عالم سینئر اور انتہائی معروف صحافی تھے ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی پولیس نے جائے واردات سے 9ایم ایم گولیوں کے خول بر آمد کیے جو ہمیشہ دہشت گرد ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے قبل جیو ٹیلی ویژن کے ایک کارکن کو کراچی کے علاقے بہادر آباد میں حملہ کرکے شہید کردیا گیا جبکہ ا دوسرا زخمی ہوا ۔ یہ دودنوں میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا دوسرا واقعہ تھا جس میں ایک صحافی اور ایک میڈیا کارکن ہلاک ہوئے ۔ ابھی تک کسی نے ان ہلاکتوں کی ذمہ د اری قبول نہیں کی ۔ ابھی تک پولیس بھی کسی نتیجے میں پر نہیں پہنچی کہ اس میں دہشت گردوں کا کون ساگروہ ملوث ہے ۔ صفورا گوٹھ قتل عام کے اکثر ملزمان گرفتار ہیں۔ یہ ملزمان پولیس نے گرفتار کیے ہیں ۔ اس میں سیکورٹی کے اداروں کا کوئی کردار نمایاں نظر نہیں آتا ۔ شاید پولیس نے اپنی جدوجہد سے اس خطر ناک گروہ کا پتہ لگایا اور ان کو گرفتار کرکے سب کو حیران کردیا ۔ اس سے قبل سبین محمود قتل کیس میں حکومتی اہلکاروں پر شکوک ظاہر کیے گئے تھے بعد میں ان دہشت گردوں نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا دہشت گردوں کا گروہ ہے جو یکے بعد دیگرے صحافی ‘ ڈاکٹر ‘ دانشور اور اساتذہ کو قتل کررہاہے ۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان غیر ملکی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور دشمن ممالک ان دہشت گردوں کو استعمال کرکے ملک میں بد امنی ‘ انتشار ‘ بددلی ‘ انار کی پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان میں عدم استحکام رہے اور دشمن اپنے اہداف آسانی سے حاصل کرے ۔ جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے ۔ بلوچستان میں چالیس کے قریب صحافی قتل کیے گئے ۔ بعض صحافی رہنماؤں کے مطابق پاکستان بھر میں100سے زیادہ صحافی اورمیڈیا کارکن قتل ہوئے ۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ رینجرز کراچی آپریشن میں اپنے تمام اہداف حاصل نہیں کر سکے ان دہشت گردوں کے خلاف مکمل کارروائی نہیں ہوئی ان کے ’’ خاموش گروہ‘‘ شہر میں موجود ہیں اور موقع جان کر کارروائی کرتے ہیں اور پھر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یہ سیکورٹی اداروں کاکام ہے کہ وہ ان تمام خاموش دہشت گرد گروہوں کا پتہ لگائے اور ان کو اس سے پہلے تباہ کردے کہ وہ ملک اور قوم کو مزید نقصان نہ پہنچا سکیں ۔توجہ خاموش گروہوں کی طرف دی جائے ان کا پتہ لگایاجائے اور ان کو تباہ کیاجائے ۔ ان کے مشکوک سہولت کاروں کا پیچھا کیاجائے کہ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے اور ان کا اسلحہ کہاں پر ہے اور خود کہاں چھپ کر بیٹھے ہیں ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافی کو قتل کرنے والا گروہ ایک ہے جو میڈیا وین پر حملہ آور ہوا اور میڈیا کارکن کو شہید کیا اور یہی گروہ پولیس والوں کے قتل میں ملوث ہے ۔ انہوں نے ان سب وارداتوں میں وہی اسلحہ استعمال کیا اور وہی موٹر سائیکل بھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فرقہ وارانہ دہشت گردی سے تعلق نہیں ہے شبہہ ہے کہ یہ دشمن ملک کے کارندے ہو سکتے ہیں جن کا ہدف انار کی ‘ بد دلی ‘ عدم استحکام لوگوں میں خوف و ہر اس پیدا کرنا ہے اب یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ فوری طورپر اسی گروہ کا پتہ لگائے اور مزید کارروائیاں کرنے سے پہلے اس گروپ کو تباہ کیاجائے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت اور اس کی سیکورٹی پر حملہ آور ہے یہ ان دوسرے دہشت گردوں سے زیادہ خطر ناک گروپ معلو م ہوتا ہے جس کے اہداف زیادہ خوفناک ہیں ۔