کوئٹہ : وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر بلوچستان حکومت کی کارکردگی اور امن و امان کی بحالی کا کریڈٹ مخلوط صوبائی حکومت، وفاقی حکومت ، فورسز کو جاتا ہے ، بلوچ مزاحمت کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ساحل، وسائل اور حقوق کے لیے جمہوری جدوجہد بلوچ کے مفاد میں ہے، وزیر اعظم کا رویہ انتہائی مثبت ہے، اصولی اختلاف ہوگا تو ضرور رکھوں گا، بلوچستان میں مزاحمت کاری محرومی کے خاتمہ سے ہی ختم ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، وزیر اعلیٰ نے نیشنل ایکشن پلان پر تمام صوبوں کیجانب سے عملدرآمد پر بلوچستان حکومت کے سبقت لے جانے کے سوال پر کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20نقاط ملک اور بلخصوص بلوچستان کی ضرورت ہیں، ہم نے انتہائی دیاتنداری ، ایمانداری کے ساتھ اس پر عمل کیا، جس میں تمام کارنرز سے صوبائی حکومت کو تائید اور حمایت حاصل رہی، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں فرقہ واریت، بلوچ مزاحمت، مسلح دفاع اور قبائلی تنازعات ، امن و امان کی خرابی کی وجوہات تھیں، انہوں نے کہا کہ بلوچ مزاحمت کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے لیے مذاکرات کے علاوہ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ملک کے اندر رہتے ہوئے جمہوری انداز میں ساحل ، وسائل اور حقوق کی جدوجہد بلوچ کے بہتر مفاد میں ہے، مسلح دفاع سے متعلق انہوں نے کہا کہ بلوچ مزاحمت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو رکھا گیا تھا جو سرکار کے نام پر لوٹ مار کرتے تھے انہیں غیر فعال کرنے کا کریڈٹ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کو جاتا ہے، بلوچستان اور بلخصوص کوئٹہ میں اغواء کاروں کے 70سے 72گروہ سرگرم تھے، اغواء کاروں کے تقریباً تمام گروہوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے، کوئٹہ شہر جوکہ ہماری حکومت سے قبل مغرب کو ہی بند ہو جاتاتھا اب رات گئے تک بازاروں میں کاروبار ہو رہا ہے، کوئٹہ خضدار کراچی، کوئٹہ جیکب آبادشاہراہیں غیر محفوظ تھیں، آج ہر قومی شاہراہیں رات دن سفر کے لیے محفوظ ہیں ، مدارس سے متعلق سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ ابتدائی سروے کے مطابق بلوچستان میں 4سے 5ہزار مدارس ہیں ہم مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق زبردستی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اب وزیر اعظم سے ملاقات میں علماء کرام نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مدارس میں ملکی طلباء کے علاوہ غیر ملکی طالبعلم بھی موجود ہو سکتے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچ مزاحمت کار کے ساتھ مذاکرات پر وفاق، عسکری قیادت اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی قیادت ایشوز اور نان ایشوز پر بہت کڑی ہے ، جب میں آیا تو حالات کا تقاضہ تھا کہ تمام قوتوں کے ساتھ ملکر بلوچستان کے مجموعی امن کو بہتر اور عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کروں، خوامخواہ کے تنازعات نے بلوچستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے، اگراصولی اور بلوچستان کے مفاد کی بات ہوگی، تو ضرور اختلاف رکھوں گا، ملک کے 73خودمختار اور نیم خود مختار اداروں میں بلوچستان کو نمائندگی نہیں، وفاقی اداروں میں بلوچستان کے ملازمتوں کے 9فیصد کوٹے، فارن سروسز میں بلوچستان کی نمائندگی اور بلوچستان کے فنڈز سے متعلق معاملات وزیراعظم کے ساتھ اٹھائے ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کا تقریباً نصف ہے، جسے قلیل فنڈز سے ترقی دینا ممکن نہیں، بلوچستان میں زیر زمین پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے اور آبی ذخائر کی تعمیر وفاق کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان کے وقت پیپلز پارٹی کی قیادت کو بتا دیا تھا کہ یہ طریقہ درست نہیں، وفاق نے بلوچستان سے 5ہزار اساتذہ بھرتی کئے لیکن بعد میں میری حکومت کے گلے ان اساتذہ کو ڈال دیا گیا، سیندک کی 50فیصد آمدن بھی حکومت کو نہیں ملی، انہوں نے کہا کہ غربت اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بلوچستان کے دو بڑے عذاب ہیں، انہوں نے کہا کہ ملازمتوں میں بلوچستان کے 9فیصد کوٹہ پر عملدرآمد نہیں ہو رہا جبکہ اگر اسلام آباد میں کسی کو ملازمت مل بھی رہی ہے تو اس میں بھی لوگ جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر بلوچستان کا حق لے جاتے ہیں، ہم نے کہا کہ جس کو بھی وفاق میں ملازمت دی جاتی ہے اس کے ڈومیسائل کی تصدیق حکومت بلوچستان سے کرائی جائے، میں دلیل اور منطق کے ساتھ بلوچستان کے معاملات اور مسائل دیکھتا ہوں، انہوں نے کہا کہ وفاق سے ملنے والے فنڈز ہماری ضرورتوں کے مطابق بہت کم ہیں لیکن تاریخ میںیہ پہلی وفاقی حکومت ہے جو وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لیے جتنا فنڈ مختص کرتی ہے وہ رقم بھی صوبے کو جاری کرتی ہے ماضی میں تو اگر 50ارب روپے بلوچستان کے لیے مختص ہوئے تو 10ارب جاری کئے جاتے تھے، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، تعلیم کا بجٹ 24فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے، 1970 سے میری حکومت تک بلوچستان میں صرف ایک میڈیکل کالج تھا، موجودہ حکومت صوبے میں مزید تین میڈیکل کالجز اور 6سے 7یونیورسٹیاں قائم کر رہی ہے،تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے 5ہزار اساتذہ این ٹی ایس (NTS) کے ذریعے بھرتی کئے جا رہے ہیں، بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں بہتراور اعلیٰ شہرت کے حامل شخص کو چیئرمین تعینات کیا گیا ہے، غریبوں کے بچے کمیشن کے امتحانات میں کامیاب ہو رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بلوچستان کے نوجوان ملازمتوں کے لیے نہیں جا سکتے، ہمارے بچوں کو بھی جاپان و دیگر ممالک روزگار کے حصول کے لیے ہنر مند بنا کر بھجوایا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت ملک کا اول مسئلہ کرپشن کا ہے جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کریگا، گڈ گورننس کے لیے احتساب ناگزیر ہے، احتساب کے بغیر جمہوری نظام بہتر نتائج نہیں دے سکتا اور بلوچستان میں قلیل وسائل کے باعث کوئی بھی ترقی نہیںآ سکتی، انہوں نے کہا کہ جو ہماری ذمہ داری ہے وہ ہم ادا کرینگے جو وفاق کی ہے اسے ادا کرنا ہوگی۔ الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں سب کو ملکر ملک اور بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی اور یہی اس وقت ہم کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ میری حکومت میں کوئی مداخلت نہیں کرتا جو آئین و رولز مجھے بحیثیت وزیر اعلیٰ اختیار دیتے ہیں آزادانہ طریقے سے اپنے اختیارات استعمال کرتا ہوں، مداخلت کا تاثر درست نہیں، انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشوں کے گرنے میں نمایاں کمی آئی ہے، لاپتہ افراد سے متعلق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہیں قانون کے مطابق عدالتوں میں لایا جائے۔ ڈاکٹر اللہ نذر سے متعلق انہوں نے کہا کہ میں اس کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا، نوابزادہ براہمداغ بگٹی کے مذاکرات اور بات چیت کے بیان کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بڑی مثبت پیش رفت قراردیا، ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں وہی لوگ واپس آکر آباد ہو رہے ہیں، جنہوں نے امن و امان کی مخدوش صورتحال میں یہاں سے نقل مکانی کی تھی جن میں آباد کار، ہندو برادری اور بلوچ بھی شامل ہیں۔