دہائیوں بعد حکمرانوں نے بلوچستان لیویز کی اہمیت کا اعتراف کر ہی لیا ۔ اس سے پہلے معلومات سے نا بلد سابق فوجی صدر پاکستان کے متعصب افسران نے کان بھرے تھے اور ان کو باور کرایا تھا کہ بلوچستان لیویز ریاست پاکستان کا ایک دفاعی ادارہ نہیں بلکہ وہ سب سرداروں کے ملازم ہیں۔ سابق صدر پاکستان نے ان غلط معلومات کی تصدیق کیے بغیر لیویز کا محکمہ توڑ دیا اور اس کو پولیس میں ضم کردیا ۔ بعد میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے لیویز کو بحال کیا اس پر بھی متعصب افسران بڑبڑاتے رہے کہ لیویز بحال ہوگیا حالانکہ یہ حقیقت تھی کہ پورے بلوچستان میں امن و عامہ کو کنٹرول کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں تھی۔ پولیس افسران نے اس دوران لیویز اہلکاروں سے کام لیا اور اپنے آپ کو سرخ رو کیا ۔ حالانکہ دور دراز پہاڑوں ‘ ریگستان اور بیا بانوں میں لیویز کے اہلکار ہی کام کرتے رہے ۔ لیویز کے خلاف نفرت کے دو وجوہات تھے ۔ ایک تو لیویز کے علاقوں میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے اور منظم جرائم صرف پولیس کے علاقوں کے محدود تھے جہاں سے پولیس کو ہمیشہ بھتہ ملتا رہا ۔ ان میں فحاشی کے اڈے ‘ جوئے اور منشیات کے اڈے ‘ چوروں کے گینگ، موٹر سائیکل اور کار چوری کے گینگ صرف شہری علاقوں اور پولیس علاقوں میں تھے اور ہیں ۔ لیکن لیویز کے علاقے میں ان جرائم کا تصور ہی نہیں ہے لیویز فورس کو عام طورپر کیمونٹی پولیس تصور کیا جاتا ہے اور سینکڑوں سالوں سے یہ اپنے سماج کا دفاع کرتا آرہا ہے اور سماج دشمن افراد کے خلاف فوری اور بھرپور کارروائی کرتا آرہا ہے جس کی مثال خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ فورس کے اندر زیادہ تر ایک قبیلے کے لوگ ہیں یا قریبی رشتہ دار ہیں اور ان کو قبائلی عمائدین کی زبردست سرپرستی حاصل ہے ۔ سماج اس فورس کی پشت پر ہے اس لئے سب سے زیادہ حساس بھی یہی فورس ہے اور اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی معلومات کاان کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں ۔ اپنے علاقے کے ہر شخص سے متعلق ان کے پاس تفصیل کے ساتھ معلومات ہیں ۔ نو وارد شخص کے آنے کی اطلاع سب سے پہلے ان کو ہوتی ہے یہ بھی ان کو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے شخص کا پس منظر کیا ہے ۔ گزشتہ دہائیوں تک بڑے سے بڑے جرائم پیشہ افراد کو بغیر کسی مزاحمت کہ گرفتار کر لیتے تھے بلکہ ملزم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ بلوچستان لیویز کے سامنے مزاحمت کی سوچ نہیں سکتا تھا ۔ اس لئے گزشتہ دہائیوں سے مقامی انتظامیہ عوام میں مقبول تھی بلکہ ان کی نزدیکی اور قربت اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ گھریلو جھگڑوں کا بھی تصفیہ کرانے لگے ۔سیاسی ہلچل نے اس فورس کی ہئیت بدل دی اور مقامی انتظامیہ نے اعلیٰ ترین سطح کے احکامات کے تحت اس فورس کے خلاف بد دلی صرف اس وجہ سے پیداہوئی کہ اس فورس کو سیاسی طورپر استعمال کیا جانے لگا اور خصوصاً حکومت کے مخالفین کے خلاف ‘ ورنہ سماجی طورپر لیویز بہت ہی موثر فورس تھی اور کسی حد تک آج بھی ہے پولیس کے مقابلے میں اس کا احترام عوام میں زیادہ ہے ۔ کیونکہ لیویز کے اہلکار جھوٹے مقدمات بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے وجہ صرف یہ تھی کہ وہ مجموعی طورپر سماج اور سوسائٹی کے سامنے جوابدہ تھے اور ہیں ۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو جدید تربیت دی جائے اور وہ بھی جلد سے جلد تاکہ جو خلاء موجود ہے اس کو لیویز پر کرے ۔ اکثر مقابلوں میں لیویز کے سپاہی پولیس سے آگے ہوتے تھے ۔ اس کارکردگی نے فوج کے جنرل کو ششدرکردیا خصوصاً دہشت گردی کے خلاف ٹریننگ کے دوران جو کارکردگی بلوچستان لیویز کی رہی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جدید اسلحہ، آلات اور تربیت کے بعد یہ پاکستان کی بہترین کیمونٹی پولیس بن سکتی ہے ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ کیاجارہا ہے اور اس کو پولیس کے برابر سہولیات اور مراعات دی جائیں گی ۔