|

وقتِ اشاعت :   October 3 – 2015

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن کے قیام کے لئے چار بنیادی تجاویز پیش کیں۔ ان میں لائن آف کنٹرول اور سرحدی جنگ بندی معاہدوں کی پاسداری ‘ اور اس کا احترام ‘ طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دینا ‘متنازعہ علاقوں کشمیر سے بھارتی فوجوں کی واپسی ‘ سیاچن سے فوجی انخلاء شامل ہیں ۔ یہ چاروں تجاویز مثبت انداز میں پیش کئے گئے ہیں جن کا بنیادی مقصد صرف امن کا قیام اور اسکو مستحکم بنانا ہے ۔ بنیادی مسائل میں کشمیر اور سیاچن اہم ہیں اس لئے وہاں سے فوجی انخلاء ضروری ہے ۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے فوجیوں کا انخلاء ضروری ہے اس سے عوام الناس کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ پر امن ماحول میں ایک زیادہ پر کشش اور قابل قبول حل تلاش کریں جو کشمیری عوام کے خواہشات کے مطابق ہو ۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے یہ احسن تجویز بھی دی کہ سیاچن کے علاقے سے دونوں ملک اپنی افواج واپس بلا لیں اور اسکو غیر فوجی علاقہ قرار دیں اور وہاں پر کسی قسم کی فوجی نقل و حمل نہ ہو۔ اس سے امن کو تقویت ملے گی اور خطہ میں امن یقینی ہوجائے گا۔ وزیراعظم کی تجاویز کا بنیادی مقصد امن کی قوتوں کو اس خطے میں زیادہ مضبوط بنانا ہے ۔ بھارت کو نیچا دکھانا مقصود نہیں تھا۔ ان مثبت تجاویز سے دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل میں تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کا موقع ملے گا اور ساتھ ہی جنگجو عناصر کی ہمت شکنی ہوگی جو پورے خطے کے لئے سود مند ہوگی ۔ وزیراعظم کی تجاویز کے پس پردہ وہ واقعات ہیں جو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اور بھارتی فوج جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے جس سے پاکستان کے عوام کو یہ تاثرمل رہی ہے کہ بھارت دھونس اور دھمکی پر اتر آیا ہے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی دے رہا ہے ۔ اس سے صرف خطے کا امن تباہ و برباد ہوگا اور اسکا سب سے زیادہ نقصان بھارت ہی کو ہوگا ۔ اگر بھارت نے کوئی بڑی غلطی کی تو ممکن ہے کہ بھارت ترقی کی دوڑ میں سو سال پیچھے چلا جائے اور اس کی دنیا کی بڑی طاقت بننے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ گوکہ پاکستان بھی نقصان میں رہے گا مگر بھارت کا نقصان زیادہ شدید ہوگا اس لئے امن دونوں ملکوں اور دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے ۔ اس لئے بھارت کو چائیے کہ وزیراعظم پاکستان کے امن تجاویز کو قبول کرے اوران پر عمل بھی کرے تاکہ پاکستان دوسر ے شعبوں میں بھی بھارت سے تعاون میں اضافہ کرے۔ پاکستان صرف مکمل امن کی صورت میں بھارت کو تجارتی راہداری کی سہولیات فراہم کرے گا خصوصاً افغانستان اور وسطیٰ ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ۔چین سے راہداری کے معاہدے کے علاوہ بھی پاکستان تمام تر سہولیات فراہم کرنے کو تیار ہے ۔ جب بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات ختم ہوجائیں گے ۔ یہ ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کی باہمی تجارتی تعلقات سو ارب ڈالر تک چلے جائیں جب بھارت کشمیر پر کشمیری عوام کے موقف کو تسلیم کرے گا اور پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم ہوسکیں گے۔ اب بال بھارت کے کورٹ میں ہے ۔ بھارت کس طرح رد عمل کا اظہار کرتا ہے آیا وہ اس کے بعد پاکستان کی خلاف تادیبی کارروائیوں میں اضافہ کرتا ہے اور سرحدی علاقوں میں کشیدگی میں ا ضافہ کرتا اور ان علاقوں پر گولہ باری کرتا ہے تو اس کا مطلب صاف الفاظ میں اعلان جنگ ہے ۔ پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔ پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ اپنے قومی دفاع سے غافل رہے گا۔