|

وقتِ اشاعت :   June 16 – 2022

تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق تحقیقات کےلیے انکوائری کمیشن کا نوٹیفیکیشن اسلام آبادہائیکورٹ میں پیش کردیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات پر دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔

شیریں مزاری اور ایڈوکیٹ ایمان مزاری اپنے وکیل علی بخاری کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

 

وکیل علی بخاری نےعدالت کو بتایا کہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ 4 جون کو انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تاہم ابھی تک کمیشن سے متعلق کچھ نہیں ہوا اور نہ ہمیں بلایا گیا۔

وکیل علی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ٹی او آر سے متعلق بھی ایک استدعا تھی کہ کرمنل کاروائی کی تحقیقات کا ذکر بھی ہوجاتا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ہم کمیشن کو سپروائزنہیں کرسکتے،ان کواپنا کام کرنےدیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس عدالت کی اس سے متعلق یہ رائے ہے کہ یہ کاروائی قانونی طریقہ کار کے مطابق نہیں تھی اوراگرآپ کو کوئی اعتراض مستقبل میں ہو تو دوبارہ درخواست دے سکتے ہیں۔

انکوائری کمیشن کا نوٹیفیکیشن

عدالت میں شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن پیش کردیا گیا۔

نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جس کی سربراہ سابق سیکرٹری قانون جسٹس ریٹائرڈ شکور پراچہ ہوں گے۔

ان کےعلاوہ سابق آئی جی ڈاکٹرنعمان خان ، سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹرسیف اللہ چٹھہ بھی کمیشن میں شامل ہیں۔

کمیشن کےٹی اوآر

کمیشن کے ٹی او آر بھی جاری کئے گئے ہیں جس کے مطابق یہ کمیشن شیری مزاری کی گرفتاری سے متعلق تحقیقات کرے گا اورغیرجانبدارانہ انکوائری سے گرفتاری میں اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کا جائزہ لے گا۔

یہ کمیشن 4 جولائی 2022 تک اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کوبھیجے گا، اسلام آباد انتظامیہ کمیشن کوسیکرٹریٹ سپورٹ فراہم کرے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری قومی اسمبلی سے 7 جولائی تک رپورٹ طلب کرتےہوئے سماعت ملتوی کردی۔

پچھلی سماعت کا احوال

بائیس مئی کواسلام آبادہائیکورٹ کےچیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کو فوری طور پر رہا کرنے اور معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دیا تھا۔ اطہر من اللہ نے حکومت کوجوڈیشل کمیشن بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت مطمئن ہے کہ شیریں مزاری کوغیرقانونی طورپرگرفتار کیا گیا۔

اس موقع پرشیریں مزاری کا کہنا تھا کہ کیسز سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں تھا،معلوم نہیں کس کے کہنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

شیریں مزاری کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف 7 میں واقع ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تھانہ کوہسار کی جانب سے بھی شیریں مزاری کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی۔

اینٹی کرپشن ٹیم ڈیرہ غازی خان نے شیریں مزاری کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی اور بتایا کہ ان کے خلاف ضلع راجن پور میں اینٹی کرپشن کے تحت 5/22 کا مقدمہ درج ہے۔

(ن) لیگ کا ابتدائی موقف

لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکریٹرٹ میں پریس کانفرنس میں لیگی رہنما ملک احمد خان نے شیری مزاری کی گرفتاری پر کہا تھا کہ ان کے والد عاشق مزاری کی اراضی لینڈ ریفارمز پر بحق سرکار ہوئیں۔اراضی الاٹ ہونے کے بعد زمین کے حقوق ملکیت کےطور پر کاشت کی اجازت دی لیکن پرت پٹوار میں 218 اور 480 کنال سمیت دیگر ہزاروں ایکٹر زمین پر قبضہ کیا گیا۔

لیگی رہنما نے کہا تھا کہ حکومت کا شیری مزاری کی گرفتاری میں کوئی کردار نہیں ہے اور ہم انتقام نہیں لیں گے لیکن انہوں نے عام آدمی کی زمین پر قبضہ کیا ہے۔ شیری مزاری کی پوری فیملی پر مقدمات ہیں اور انھوں نے جعلی ڈاکومنٹ تیارکرکے ریونیو ریکارڈ کو ضائع کرکےغیرقانونی زمین پر قبضہ کیا،چار سو بیس اور چار سو اکہترایکٹرزمین کا پرت سرکار کاریکارڈ غائب کیا گیا۔