|

وقتِ اشاعت :   July 1 – 2022

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے پن بجلی کے پہلے 720 میگاواٹ کے منصوبے کروٹ پن بجلی نے کام شروع کر دیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹ میں کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی خوشی ہے کہ 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے نے کام شروع کر دیا ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کے پونے چار سال میں اس منصوبے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والا پن بجلی کا پہلا منصوبہ ہے۔ میں اس منصوبے میں تعاون پر چینی حکومت کا شکرگزار ہوں۔

دوسری طرف وفاقی وزیر توانائی خرم دستیگر کا کہنا تھا کہ 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی کے منصوبے سے پیداوار شروع ہو گئی ہے، 1100 میگاواٹ کا کے ٹو نیوکلیئر پاور پلانٹ 10 جولائی اور 1214 میگاواٹ کا شنگھائی پاور پلانٹ دسمبر تک پیداوار شروع کر دے گا۔

وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے پیداوار رواں سال فروری میں شروع ہونا تھی لیکن تاخیر کے بعد 2 دن قبل 720 میگاواٹ کی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔

وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کی نااہلی، بدانتظامی، سی پیک دشمنی اور نیب گردی سے توانائی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں، پچھلے سال کے مقابلہ میں بجلی کی طلب میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی کے منصوبے سے پیداوار شروع ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1100 میگاواٹ کا کے ٹو نیوکلیئر پاور پلانٹ 10 جولائی اور 1214 میگاواٹ کا شنگھائی پاور پلانٹ دسمبر تک پیداوار شروع کر دے گا، بجلی کی قیمت میں نومبر سے کمی شروع ہو جائے گی، وزیراعظم کی ہدایت پر کمیشن توانائی کے شعبہ میں بدانتظامی اور نااہلی کے معاملہ کی چھان بین کرے گا، مسلم لیگ (ن) 2018ء کی طرح ایک بار پھر ملک کو بجلی کے بحران سے نجات دلائے گی۔

‘ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ بجلی کی طلب 30 ہزار 9 میگاواٹ ریکارڈ’

خرم دستگیر نے کہا کہ 30 جون کو ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ بجلی کی طلب 30 ہزار 9 میگاواٹ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ تخمینہ 24 سے 25 ہزار میگاواٹ کا تھا، رواں موسم گرما میں پچھلے سال کے مقابلہ میں 20 فیصد زیادہ بجلی پیدا کی گئی ہے اور بجلی کی کل پیداوار 21 ہزار 842 میگاواٹ ہے، پچھلے سال کے مقابلہ میں بجلی کی طلب میں 30 فیصد اضافہ ہوا، بجلی کا حالیہ شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ ہے.

 

ان کا کہنا تھا کہ جولائی میں بجلی کی جو پیداوار حاصل ہو رہی ہے اس کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2013ء سے 2017ء کے دوران رکھا تھا جن میں 4 ایل این جی پاور پلانٹس، 2 نیوکلیئر پاور پلانٹس، 2 کول پاور پلانٹس، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور تھرکول کے منصوبے شامل ہیں، ان میں سے بہت سے منصوبوں سے 2018ء تک پیداوار شروع ہو گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کے۔ٹو اور کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹس سے پیداوار بعد میں شروع ہوئی، 5 ہزار میگاواٹ کے مزید منصوبے سسٹم میں شامل ہو رہے ہیں ان کی بنیاد بھی اسی دور میں رکھی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بجلی کے حوالے سے دعوے غلط اور جھوٹ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے دوران ملک میں بجلی کی طلب کم رہی، صنعتیں بھی بند رہیں، رواں سال پہلا سال ہے جب معیشت پوری طرح فعال ہے، گھریلو صارفین کیلئے لوڈ شیڈنگ ہے لیکن صنعتوں کو 24 گھنٹے بجلی فراہم کرکے روزگار کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

خرم دستگیر نے کہا کہ سابق حکومت نے گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی خریداری میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار سسٹم میں نہیں آ سکی، کے۔ٹو نیوکلیئر پاور پلانٹ ری فیولنگ کی وجہ سے بند ہے اور 10 جولائی سے 1100 میگاواٹ کی پیداوار شروع کر دے گا۔

 

ان کا کہنا تھا کہ کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے پیداوار رواں سال فروری میں شروع ہونا تھی لیکن تاخیر کے بعد 2 دن قبل 720 میگاواٹ کی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہو جاتا تو لوڈ شیڈنگ میں ایک گھنٹے کی کمی آ سکتی تھی، نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ 969 میگاواٹ کی پیداوار دے رہا ہے، یہ منصوبے سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں شروع ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سی پیک دشمنی کی وجہ سے شنگھائی الیکٹرک کا 1214 میگاواٹ کا تھرکول کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور اس کے ضروری قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے مالی معاملات کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ اب اس منصوبہ سے دسمبر سے پیداوار شروع ہو جائے گی، تریموں آر ایل این جی پاور پراجیکٹ 2 سال سے مکمل ہے لیکن اسے گیس فراہم نہیں کی گئی، یہ منصوبہ نیب گردی کا شکار ہوا لیکن دو سے تین ماہ میں اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔

 

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ کو گیس فراہم کی جا رہی ہے، عمران خان کی نالائقی، سی پیک سے دشمنی اور نیب گردی کی وجہ سے 3200 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل نہیں ہو سکی، اگر یہ بجلی سسٹم میں آ جاتی تو آج لوڈ شیڈنگ سوا تین گھنٹے کم ہوتی۔

سابق حکومت نے گردشی قرضہ 2467 ارب روپے تک پہنچا دیا

انہوں نے کہا کہ آئندہ تین ماہ میں صورتحال میں بہتری نظر آئے گی، گردشی قرضہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں 1060 ارب روپے تھا جسے سابق حکومت نے 2467 ارب روپے تک پہنچا دیا، اس میں پچھلے دو، اڑھائی ماہ کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گردشی قرضے میں 250 فیصد اضافے سے شعبہ توانائی کو مالی مشکلات ہیں، وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر پٹرولیم کے شکرگزار ہیں کہ وہ اب بجلی کے شعبہ کو فنڈز فراہم کر رہے ہیں، مئی 2018ء میں ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی تھی، نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے پہلے بھی بجلی کا مسئلہ حل کیا تھا، اب شہباز شریف کی قیادت میں بجلی کا مسئلہ حل کریں گے، مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور کے نظر انداز کئے گئے بجلی کے منصوبے مکمل کرنے جا رہے ہیں۔

مسلم لیگــ (ن) کے رہنما نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے عالمی منڈی سے سستے فیول کی خریداری کا موقع ضائع کرکے مجرمانہ غفلت کی، مسلم لیگ (ن) 2018ء کی طرح ایک بار پھر ملک کو بجلی کے بحران سے نجات دلائے گی۔

‘ایران سے گوادر اور مکران کے لیے 100 میگاواٹ فراہمی کا معاہدہ’

انہوں نے کہا کہ ایران سے گوادر اور مکران کے ساحلی علاقوں کو بجلی کی 100 میگاواٹ فراہمی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، افغانستان سے کوئلہ کی خریداری کی جا رہی ہے تاکہ کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھروں کو چلایا جا سکے، ڈیموں میں پانی کی صورتحال میں بھی بہتری آ رہی ہے، عید کے دنوں میں بجلی کی صورتحال بہتر ہو گی کیونکہ صنعتیں ان دنوں بند ہوں گی۔

 

ان کا کہنا تھا کہ 22 جولائی تک بجلی کی صورتحال میں بہتری آ جائے گی، خرم دستگیر نے کہا کہ موجودہ حکومت توانائی کے شعبہ کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے، پورے ملک میں عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مشکل کا سامنا ہے، لوڈ شیڈنگ کے باعث عوامی مشکلات کا بخوبی احساس ہے اس پر جلد قابو پا لیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر توانائی نے کہا کہ بجلی کی ری بیسنگ فروری 2021ء میں کی گئی تھی، اس کے بعد توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور دیگر معاملات بھی سامنے آئے تاہم ٹیرف میں ان کو شامل نہیں کیا گیا، اب وزیراعظم کی ہدایت پر کمیشن بنایا جا رہا ہے جو ماضی میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ری بیسنگ نہ کرنے اور نیپرا پر ممکنہ سیاسی دباؤ، سستی ایل این جی نہ خریدنے جیسے تمام معاملات کی چھان بین کرے گا، کمیشن کیلئے ناموں پر مشاورت ہو رہی ہے اور اس میں توانائی کے شعبہ کے ماہرین کو شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت کی ری بیسنگ تین مراحل میں کی جائے گی، 7 روپے 90 پیسے فی یونٹ بجلی کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر سبسڈی کا تعین کرنے کے بعد یہ معاملہ کابینہ میں پیش کیا جائے گا، اکتوبر تک بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھے گی تاہم نومبر سے بجلی کی قیمت میں کمی آئے گی۔

 

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مٹیاری۔لاہور ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن کا منصوبہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا منصوبہ تھا، وہ اب مکمل ہو چکا ہے اس سے بجلی کی ترسیل میں بہتری آئی ہے لیکن سابق حکومت نے نیشنل ٹرانسمیشن کمپنی کے اربوں روپے کے منصوبے التواء میں ڈالے رکھے، موجودہ حکومت ریگولیٹری معاملات کو حل کرے گی، ہم مہنگے پاور پلانٹس چلانے کے حق میں نہیں ہیں،

ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداواری استعداد کے حوالے سے موجودہ اعداد و شمار غیر حقیقی ہیں، 25 ہزار میگاواٹ سے زیادہ کی ورکنگ کیپسٹی نہیں ہے، ہم بجلی کے بلوں کو بھی سادہ بنائیں گے تاکہ لوگ انہیں خود سمجھ سکیں، بجلی کے شعبہ کی بہتری کیلئے اصلاحات لائی جائیں گے۔