|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2022

اقوام متحدہ تو واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ فیملی پلاننگ ہر انسان کا بنیادی حق ہے یہ بات سامنے رکھیں تو خود ساختہ تولیدی صحت اور فیملی پلاننگ غربت کے پہیے کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتی محسوس ہوتی ہے۔کیوں ایسی تمام عورتیں اور ان کے خاندان دنیا میں جہاں بھی رہتے ہیں بہتر زندگی گزارتے نظر آتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی زندگی میں پائیدار نشوونما نظر آتی ہے۔مسلمان ملکوں میں بنگلہ دیش اس کی واضح مثال ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا میں اس دوڑ میں آگے کی بجائے پیچھے جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔اور آبادی اور میسر وسائل کا بہترین توازن حاصل کرتا ہوا ملک نظر آرہا ہے۔یہ دنیا کا وہ حصہ ہے جو ایک وقت تک پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا حصہ تھا۔آج یہ اعزاز پاکستان میں صوبہ پنجاب کو حاصل ہے۔لیکن اس میدان میں پنجاب عملی طور پر اتنا کامیاب نہیں ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کی بہترین دستیابی کے باوجود عدم توازن کا شکار ہے۔کچھ جملے ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایمان کا درجہ رکھتے ہیں اور اس ضمن میں برملا بولے سمجھے جاتے ہیں۔مثلا جان اللہ کو دینی ہے۔رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔روح کے اعتبار سے یہ باتیں ٹھیک ہیں لیکن جس طرح اقبال نے کہا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔۔
اس بات کا اطلاق ہمارے معاشرے میں اس موضوع پر بھی ہوتا ہے۔
جس طرح ایک اندازے کے مطابق سمجھا جاتا ہے کہ تیسری دنیا میں 200 ملین سے زیادہ خواتین ایسی ہیں جو اپنے بچوں میں وقفہ رکھنا چاہتی ہیں لیکن ان کو یا تو جدید مانع حمل کے طریقوں کو اپنانے کے لئے جدید دوائیاں میسر نہیں ہیں اور یا پھر وہ ان کو استعمال نہیں کر پاتی۔
اس حوالے سے تین باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں یعنی دستیابی۔اور قوت خرید یا معلومات کی کمی۔
یہ تینوں اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے عمل میں اپنی اپنی جگہ اہم ستون کا درجہ رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر بات کرنا بھی آگاہی اور دستیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کے برابر ہے۔جہاں تک قوت خرید کا معاملہ ہے تو اس نے مجھ سے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر سے حرص ختم کریں اور ایمانداری کا دامن مضبوطی سے پکڑنے کا عہد کریں۔
حکومتی کردار۔۔۔۔۔۔
فیملی پلاننگ کے موضوع پر تاریخی حوالے سے بات کریں تو پاکستان پوری دنیا میں ایسے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں حکومتی سطح پر سب سے پہلے کوشش کی گئی اور اس کو توجہ دینے کے لیے ادارے کی معاونت اور منسٹری بنانے جیسے اہم اقدامات کئے گئے باقی ترقی پذیر ملکوں نے بعد میں اس دوڑ میں حصہ لیا۔ اور پاکستان کے کاموں اقدامات کی پیروی کی۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان سے آگے نکل گئے۔اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا اور اس کے نتیجے میں کونسل آف کامن انٹرسٹ بنی اور سفارشات سامنے آئیں۔ یہ بھی دیر آید درست آید کے مترادف ہے۔لہذا میں یہی کہوں گا کہ
پیوستہ رہ شجر سے امید ہے بہار رکھ۔۔۔۔۔۔