کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ورلڈ سندھی کانگریس کا سالانہ عالمی کانفرنس کنگزلے حال لندن میں منعقد کیا گیا جسکا موضوع ’’پاکستان میں رجعت پسندی اور دہشت گردی کی جڑیں، انسانی حقوق کی صورت حال اور محکوم قومیں‘‘تھا۔ کانفرنس دو پینلوں پر مشتمل تھا،جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر بوب بلیک مین، ورلڈسندھی کانگریس کے سربراہ لکھو لوہانا، سلیم سنائی اور بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے بی این ایم کے خارجہ امور کے ترجمان حمل حیدر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ باہر سے آئے ہوئے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں میں ملٹری انکارپوریشن کے کتاب کی مصنفہ عائشہ صدیقہ، کمرون پاکر اور عبدالخالق جونیجوسمیت کئی دیگر نامور دانشوروں نے موضوع سے متعلق اپنے مقالے پیش کئے۔ ممبر آف برٹش پارلیمنٹ باب بلیکن نے کہا کہ ہم پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کوئی دو رائے نہیں، اس سنگین صورتحال کا ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں۔ ہم نے اس بابت پاکستانی حکومت کوبارہا اپنے تحفظات سے آگاہ کیا مگر بدقسمتی سے صورتحال میں ذرہّ برابر بھی بہتری نہیں آئی بلکہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ انہوں نے جموں اور کشمیر میں مداخلت اور دہشت گردی کو ہوا دینے کے مسئلے پر بھی پاکستانی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ورلڈ سندھی کانگریس کے سربراہ لکھولوہانا نے کہا صوفیوں کی سرزمین سندھ کو ایک منصوبے کے تحت دہشت گردی کا مرکزبنایا جارہا ہے جسکا مقصد سندھی سماج کی بنیادی ساخت کوبگاڑ کر ایسا رجعت پسندانہ سماج بنانا ہے جسے پاکستانی فوج اپنے نام نہاد اسٹریٹیجک اثاثے کے طور پراستعمال کرسکے۔آخر میں انہوں نے دنیاسے آئے ہوئے مہمانان گرامی سمیت کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں کا شکریہ ادا۔ بی این ایم کے خارجہ امور کے ترجمان حمل حیدر بلوچ نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے تاریخی رشتے ہیں۔ دونوں سماج اپنے روادارانہ روایات اور روشن فکرانہ مزاج کی وجہ سے یکسانیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست دنیا کی خاموشی کا فائدہ اٹھاکر ایک توبلوچستان میں بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے جبکہ دوسری طرف ہماری سیکولر قوم پرستانہ سوچ کو تبدیل کرنے اور بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے بے شمار مذہبی گروہ بنا چکا ہے جن میں لشکرجھنگوی، لشکرخراسان، جماعت الدعویٰ اور حتی ٰکہ داعش شامل ہیں۔ انہوں نے کہا بلوچستان میں میڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے دنیا ان پیش رفتوں سے شاید بے خبر ہے مگر حالات کی سنگینی کو دیکھ کر ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اگر اس معاملے میں دنیا کی بے رخی برقرار رہی تو یہ آنے والے وقتوں میں پورے دنیا کی امن و امان کے خطرے کا باعث بنے گا۔ حمل حیدر نے کہا کہ کئی دہائیوں کے تجربے اور خون خرابے سے ثابت ہواہے کہ خطے میں نئی صف بندی کے بغیر امن اور استحکام کا آنا ناممکن ہے۔ نامور دانشور ، مصنفہ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ دہشت گردی ہمارے سماج میں پہلے سے موجود ہے جسے ریاستیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی رہتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حالیہ مذہبی دہشت گردی کی پرورش اور فروغ میں ریاستوں کا بڑا ہاتھ ہے مگر اسکے برعکس یہ بھی حقیقت ہے کہ رجعت پسندی اور انتہا پسندی بنیادی طور پر ہماری ثقافتوں اور سماجی نظام کا حصہ بھی ہیں۔ قوم پرستوں کو چاہیے کہ وہ ان چند بنیادی حقائق کو نظرانداز نہ کریں۔ سندھ بے شک صوفیوں کی سرزمین ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھی صوفی ازم ہمیشہ اسلام اور اسلامی انتہا پسندی کے دائرے میں سفر کرتی رہی ہے۔ عائشہ صدیقہ نے بلوچ قوم پرستوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں واقعی بد سے بدترین انسانی انسانی بحران ہے اور بلوچوں پر بے انتہا ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔