|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2022

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک دوسرے پر لفظوں کے وار جاری ہیں ،ایک طرف مذاکرات تو دوسری جانب اس کی تردید کی جارہی ہے۔ بیک ڈوربات چیت ہورہی ہے اس کی تصدیق دونوں طرف سے تو نہیں کی جارہی مگر خبریں نہیںچھپتیں جنہیں جتنا دبانے کی کوشش کی جائے بلآخر وہ منظر عام پر آجاتی ہیں۔ بہرحال حکومت اوراپوزیشن کے درمیان بدترین اختلافات کے باوجود بھی ملاقاتیں اور بات چیت ہوتی رہی ہے جیسے ہی کوئی خبر منظر عام پر آجاتی ہے۔

اور ایک فریق کے مخالف چند سطور ظاہرہونے لگتے ہیں تو فوری اس کی تردید کرکے جارحانہ انداز اپنایا جاتا ہے حالانکہ وزیراعظم میاںمحمد شہباز شریف نے یہ بات کہی کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے بات چیت کے حوالے سے ایک کاروباری دوست نے رابطہ کیا اور آرمی چیف کی تعیناتی پر انہوں نے شرط رکھی جس پر میں نے انکار کیا اور میں نے واضح پیغام بھیجا کہ میثاق معیشت اور میثاق جمہوریت پر بات ہوسکتی ہے آرمی چیف کی تعیناتی ایک آئینی معاملہ ہے جس پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ اس کے بعد ایک بار پھر مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے۔

اس سے قبل ایوان صدر میں بھی پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کے رہنماؤں کی ملاقاتوں کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا گیامگر وہ بے نتیجہ ثابت ہوئے ۔اس کی وجہ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں واضح طورپر نظر آتی ہے کہ خفیہ ملاقاتوں میں ہمیں غیر آئینی کردار کا بولا جاتا ہے اور بعد میں نیوٹرل جانور جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے ،ادارہ پر حملہ آور ہوکرغلط بیانی کی جاتی ہے۔ البتہ اب گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہٰی نے اس بات کی تصدیق کردی کہ بیک ڈور مذاکرات کا عمل جاری ہے اور یہ سیاست کا حصہ ہے مارچ کے دوران بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے اور کوئی نتیجہ بھی نکل آتا ہے مگر یہ واضح نہیں کیا کہ یہ مذاکرات کون کرارہا ہے اور پُل کا کردار کون ادا کررہا ہے جو آئندہ چند روز میں واضح ہوجائے گا ۔ان مذاکرات کا اہتمام کس نے کیا ہے کم وبیش پرویز الہٰی کے بیان سے تجزیہ کیاجاسکتا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات ہورہے ہیں۔

اور اس کے نکات فی الوقت واضح نہیں ہیں۔ اس تمام تر عمل کے دوران ایک بڑی خبر یہ ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ایک کاروباری شخصیت جس کا تذکرہ کیاجارہا ہے ذرائع کے مطابق وہ بدنام زمانہ لینڈمافیا ہیں جس نے پہلے بھی عمران خان کے کہنے پر عدم اعتماد کی تحریک روکنے کے حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری سے بات کی تھی جس پر آصف علی زرداری نے یہ کہہ دیا تھا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے ،یہ شخص ہمیشہ ملکی سیاست پر حاوی رہا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس کے بہترین رابطے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کو خوش کرتے رہتے ہیں اور وہ خوشی ظاہر سی بات ہے کاروباری فائدہ ہے ۔اس سے بڑاسیاسی المیہ اس ملک میں اور کیا ہوسکتا ہے کہ جب کرپٹ عناصر ملک میں سیاسی استحکام لانے ، صادق اور امین، دیانتدار کے حوالے سے کردار ادا کریں جس پر افسوس کا لفظ بھی کم ہی لگتا ہے ۔اب اس تمام سیاسی منظر نامہ کے دوران ایک چیز صاف ہوگئی ہے کہ حکومت اوراپوزیشن بیان بازی کے وار کرکے گمراہ کن ڈرامہ رچارہے ہیں پس پردہ فلم کچھ اور ہی چل رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کب تک عوام کے ساتھ کرپشن ، ایمانداری، صادق اور امین جیسے نعروں کے ساتھ کھلواڑ جاری رہے گا، بدقسمت عوام اپنی تقدیر بدلنے کا سوچ رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں اقتدار اور اپنی پوزیشن بنانے میں مصروف ہیں۔ملک میں تبدیلی ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں محض عوام کو خوش نما خواب دکھاکر ان کے جذبات کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔