|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2023

ملک بھر میں آٹے کی کمی کا روناجاری ہے ، عوام سستے آٹے کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں آٹے کی مصنوعی قلت پیداکی جارہی ہے اور مہنگے داموں میں اس کی فروخت جاری ہے ، عوام سرکاری آٹا خریدنے کے لیے دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔عام مارکیٹ میں آٹے کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خریدجواب دے گئی ہے۔ اس وقت سب سے سنگین مسئلہ آٹے کی قلت ہے جس کا عوام کو سامنا ہے۔ بلوچستان میں گندم کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ترہوتا جارہا ہے ، سرکاری نرخوں پر آٹا نہ ملنے کی وجہ سے شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔

مظاہرین نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ جانے والی شاہراہ پر دھرنا دے دیا، سستے آٹے کی تلاش میں سرگرداں شہریوں کو جب آٹا نہ ملا تو انہوں نے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ جانے والا زرغون روڈ بلاک کردیا۔آٹا لینے کے لیے آیا ایک معمر شخص سڑک پر لیٹ کر دہائی دیتا رہا اور کہتا رہا کہ ہم پر گاڑی چڑھا دو،ہمیں ختم کردو،نہ ہم ہوں گے،نہ آٹا لینے آئیں گے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، خواتین اور بچوں کے ساتھ آئے ہیں، حکومت سے معافی چاہتے ہیں ہمیں آٹا دیں، آٹا نہیں مل رہا۔دوسری جانب فلور ملزمالکان گندم کی نقل وحمل پر بین الصوبائی پابندی کے باوجود تھوڑی بہت گندم اور آٹا لا رہے ہیں۔

جس کی وجہ سے 20 کلو آٹے کا تھیلا اب 3 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ دوسری جانب کراچی میں گندم کی قیمت میں 10 روپے فی کلو کمی ہوگئی لیکن آٹے کی قیمت کم نہ ہو سکی، شہر میں چکی کے آٹے کی قیمت 155 روپے سے 160 روپے کلو برقرار ہے۔پنجاب میں سرکاری کوٹے میں اضافہ ہوتے ہی نجی گندم مارکیٹ کریش کر گئی جس کے بعد قیمتوں میں بھی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ گندم کی فی من قیمت میں 1200 روپے کمی آ گئی جس سے 5400 والی گندم کھلی منڈی میں 4200 روپے من پر آگئی ہے۔

آٹا، میدہ ،فائن کی قیمتوں میں بھی واضح کمی کا امکان ہے جبکہ چکی آٹا بھی 15 سے 20 روپے فی کلو کم ہونے کا امکان ہے۔محکمہ خوراک خیبرپختونخوا نے گندم کا یومیہ کوٹہ 5 ہزارسے بڑھا کر ساڑھے 6 ہزارمیٹرک ٹن کردیا ہے جس سے صوبے میں آٹے کی قیمت میں استحکام آرہا ہے۔

صوبائی وزیر خوراک خیبرپختونخوا عاطف خان نے کہا ہے کہ سستے آٹے کی فراہمی کے لیے حکومت زیادہ سے زیادہ سبسڈی دے رہی ہے، ہمارے پاس گندم کا کافی اسٹاک موجود ہے،سستا آٹا صوبے کی غریب عوام کے لیے ہے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی سے جہاں دیگر چیزوں کی قیمتیں بڑھیں وہیں آٹے کی قیمت بھی بڑھی ہے۔یہ سب کے علم میں ہے کہ آٹے کااسٹاک بہت زیادہ ہے مگر ذخیرہ اندوز اپنی منافع خوری کی وجہ سے آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کررہے ہیں جن کے خلاف ایکشن نہیں لیاجارہا ۔ نان بائیوں کے مطابق انہیں آٹا آگے سے مہنگا مل رہا ہے اسی وجہ سے انہوں نے روٹی کی قیمت میںاضافہ کیاہے۔ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آٹے کی مصنوعی قلت پیداکرنے والے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خورو ںکے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائیں ،یہ تب ممکن ہوگاجب ضلعی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں متحرک ہوںگی۔ المیہ یہ ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں مکمل طور پر غیر فعال دکھائی دیتی ہیں۔ ضلعی آفیسران بھی اس معاملے پر توجہ نہیں دے رہے ، لہٰذا صوبائی ایگزیکٹیو کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیتے ہوئے عوام کو اس بحرانی کیفیت سے نکالے تاکہ عوام کم ازکم روٹی کے لیے دھکے کھانے پر مجبور نہ ہوں۔